﷽بِسمِ اللہِ الرَّحمنِ الرَّحِیم
شامِ اندھیر کو جو چراغاں کرے
قسط نمبر:1
"بودریا: الشیطان البحر"
(The Devil of Sea)
بہت حاصل نہ مگر مسکراہٹوں کی تابانی
نوکیلی شاخوں سے لپٹی اشکوں کی بیانی
گھپ تاریکی میں اِک تاباں جگنو کی زبانی
بس ایسی ہی ہے نور اور حبیب کی کہانی
٭٭٭
"کہہ دو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو اپنے پروردگار سے ڈرو۔ جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے۔ اور خدا کی زمین کشادہ ہے۔ جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بےشمار ثواب ملے گا۔"
(سورۃ زمر: 10)
٭٭٭
دولۃ القطر کا شہرالدوحۃ۔ سن 1989ء ۔ جون کے مہینے کی گرم راتیں۔ رات کا آخری پہر ۔ ابھی صبح صادق کی پہلی کرن نے تاریکی کی سیاہ چادر کو نہیں چیڑا تھا۔
قطر کے قدیم محلّہ الغانم میں سنسانی اپنے عروج پر تھی کہ قدموں کی خاموش چاپ نے سنسانی ختم کی۔ تیز تیز چلتے قدم محلّے کے آخری خستہ حال مکان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ مکان کے ٹوٹے دروازے پر پہنچ کر قدم رْک گئے۔ بنا آواز کے دروازہ کھولا گیا۔ چہرے کو کپڑے سے ڈھانپے، بغیر چاپ کے ایک ہیولا سا اندر داخل ہوا۔ سر پر ٹوپی پہنے ، بال ٹوپی کے اندر چھپے تھے۔
گھر کے اندر گھس کر اطراف کا جائزہ لیا۔ اندر کا منظر ویسا ہی تھا، جیسا اس زمانے میں وہاں کے تمام گھروں میں نظر آتا تھا۔داہنی دیوار کے نیچے آگ جلانے کی لکڑیاں، چند ہانڈیاں اور مٹی کے پیالے پڑے تھے۔باہنی دیوار سیاہ تھی اور نیچے لکڑیوں کی راکھ پڑی تھی۔ سیدھ میں دیکھو تو دو چھوٹے کمرے نظر آتے تھے جن کی چوکھاٹ میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ ایک مکمل اندھیر تھا جبکہ دوسرےکے اندر سے ہلکی روشنی باہر آ رہی تھی، جیسے لالٹین جلا پڑا ہو۔
آدمی کے قدم اْسی کمرے کی جانب بڑھے۔ کمرے کے اندر دو پلنگ پڑے تھے اور پاس میں ہی ایک میز پر لالٹین جل رہا تھا۔ ایک پلنگ پر ایک آدمی سویا پڑا تھا۔ جبکہ دوسرے پلنگ پر ایک عورت اور ساتھ چند ماہ کا بچہ سویا پڑا تھا۔
آدمی بس دو قدم آگے بڑھا اور ماں کی آغوش سے اْس کا بچہ کھینچا۔ ماں کی آنکھیں فوراً کھلیں۔ آدمی نے بچے کو جھپٹا، اور گود میں لئے بھاگا۔ اسے اور کچھ بھی نہیں کرنا تھا۔ ماں کے چلاّنے کا شور، بچے کے رونے کی آواز، اپنے پیچھے کسی دوسرے آدمی کے دوڑنے کی چاپ۔ اسے سب سنائی دئے جا رہا تھا۔ مگر اسے اس سب سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ وہ بس دوڑے جا رہا تھا، بے مقصد، اندھا دھن۔
محلے کا موڑ آیا۔ دیوار سے کمر ٹکائے،وہ رکا۔ کسی دوسرے کی دوڑنے کی چاپ بند ہو گئی تھی، یعنی وہ اب اس کے بہت پاس تھا۔ بچہ ویسے ہی روئے جا رہا تھا۔ آدمی ایک جھٹکے سے مڑا اور ہاتھ میں پکڑا خنجر اْس کے گلے میں ڈال دیا۔ جھٹکے کے باعث اس کی ٹوپی زمین پر گری اور لمبے بال کندھوں پر آ گرے۔
خون کی چھینٹ اس کے اور بچے کے چہرے پر آ گریں۔ بچے کا باپ لڑھک کر گِر گیا۔ آدمی نےاس کے گلے سےخنجر نکالا اور ایک دفعہ پھر بے دردی سے مارا تاکہ اس کی موت کا یقین ہو جائے۔ پھر کنجر نکالا اور بھاگ گیا۔
بچے کا باب نظروں میں عجب سی نا کامی اور غم لئے اپنی آخری سانسیں لیتا رہا۔ آنسو انکھوں سے لڑھکے۔ سانس کی نالیوں نے آخری سانسیں خارج کیں۔ تبھی صبح صادق کی پہلی قرن آسمان پر چمکی۔ اذانِ فجر کی صدائیں ہواؤں میں گونجیں۔
"اللہ اَکبَر، اللہ اَکبَر۔"
٭٭٭
نیو ائر نائت تھی۔ ابھی نئے سال میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ لڑکے لڑکیاں ایک گروہ بنائے کھڑے تھے ۔ سب کے ہاتھوں میں کینز تھے۔ ان کا بے ہنگم شور ہر جگہ با آسانی سنائی دے رہا تھا۔ گروہ کے درمیان دو لوگ تھے۔
ایک سیاہ جینز اور گرے شرٹ کے اوپر موٹی جیکٹ پہنے ، کھلے تڑاشیدہ بھورے بالوں والی لڑکی۔ اسکی سنہری آنکھیں میں ایک انوکھی سی چمک تھی۔
"نور!نور ! نور!" لڑکیوں کا تیز شور ۔
ایک لڑکا جو سیاہ جینز اور سفید شرٹ میں تھا، اس کابھاری جسم اس کی کمزوری کا اندازہ لگانے کے لئے کافی تھا ۔
"ارتضی! ارتضی! ارتضی!"لڑکوں کی بے ہنگم آوازیں۔
دْبلی پتلی نور پورے زور سے موٹے ارتضی کے سر پر اپنی ہیل مارے جا رہی تھی اور پھر مکّا بھی مار دیتی۔موٹا ارتضی پوری کوشش سے اپنے آپ کو بچانے میں مصروف تھا۔لڑکے اور لڑکیاں دل کھولے ہنسے جا رہے تھے۔ جب بھی نور ان کے ساتھ کسی بھی ایونٹ پر آتی تھی، انہے یہ
دیکھنے کو ملتی تھی۔ کسی لڑکےکو ایک لڑکی سے پٹتے ہوئے دیکھنا بہت مزےدار تھا۔ “Entertainment”
کیفے کا املہ بھی یہ منظر دیکھے انجوائے کر رہا تھا ، انہیں اس سب کی عادت تھی۔ وہاں اکثر ایسے الیٹ کلاس ینگسٹرز یہ تماشے کرنے آتے تھے۔ کوئی آگے ہو کر روک نہیں رہا تھا۔
"چلو چلو بوئز اینڈ گرلز! بہت ہو گیا مقابلہ، اب بہت تھورا ٹائم باقی ہے۔ گیٹ آن یور پوزیشنز۔" کیفے کا مینیجر آیا اور سب کو وقت سے مطلع کیا۔سب سمجھ گئے تھے اب کیا کرنا ہے۔ لڑکیاں آگے ہوئیں اور نور کو زبردستی پیچھے کیا اور لڑکوں نے آگے ہو کر ارتضی کو بچایا۔ دونوں نے اپنے اپنے کپڑوں سے گرد جھاڑی۔
"لڑکی تھی اس لئے کچھ نہیں کہا۔" ارتضی دور سے چلایا۔ سب لڑکے ہنسنے لگے۔
" ارےتم جیسے سو (100)تو ہوں۔" نور غرائی۔ اب کی بار لڑکیاں بھی ہنسنے لگیں۔" اگر تم لوگ مجھے پیچھے نہ کرتے نہ تو آج یہ میرے ہاتھوں جاتا۔" نور کپڑے جھاڑکر بولی۔پھرواپس ہیل پہننے لگی مگر ہیل بری طرح ٹوٹ چکی تھی۔ نور نے پاؤں سے اسے دور پھینکا اور دوسرا بھی اتار دیا۔
نئے سال میں اب بس پانچ منٹ باقی تھے۔ لڑکے آتش بازی کا سامان تیار کئے کھڑے تھے اور لڑکیاں وہ تمام خواہشات جو وہ اگلے سال پورا کرنا چاہتی ہیں چھوٹی چھوٹی چِٹس پر لکھ کر غباروں میں بھر رہی تھیں۔ پھر سب اپنے اپنے سیاہ رنگی غباروں میں
بھر کر ہاتھوں میں لئے تیار کھڑی تھیں۔ نور بھی یہی کر رہی تھی۔helium
"تم نے پھر وہی لکھا نہ جو تم ہر سال لکھتی ہو۔" عائزہ نے اکتا کر نور کو دیکھا۔
"کیا؟" نور جیسے انجان بنی۔
" عائزہ نے وہ جملہ فر فر دہرا دیا۔ Bénis moi avec un protecteur"
"تو؟" نور کو برا لگا۔
"کون سی زبان ہے یہ؟"
" گوگل کر لو۔ " ساتھ ہی داہنی آنکھ جھپکائی۔ وہ جانتی تھی وہ کبھی بھی نہیں کریگی۔کس کے پاس اتنا وقت ہےبھلا؟
"آہ!" وہ کراہی۔"تم خود نہیں بتا سکتی کیا؟"
"گائز! آر ہو ریڈی؟" منیجر ایک بار پھر بیچ میں آگیا۔
" سب نے یک آواز چلایا۔Yes!”
تبھی ایک بیل سی بجی اور کیفی کی تمام بتیاں بجھا دی گئیں۔ لمحے بھر کے لئے اندھیرا اور خاموشی رہی پھر اگلے ہی لمحے آسمان پر بے پناہ روشنیاں ابھریں، لڑکوں نے آتش بازی کا باقعدہ آغاز کیا اور لڑکیوں نے اپنے ہاتھوں سے غبارے چھوڑے۔
سب گلا پھاڑ کر چلانے لگے۔
"Happy New Year 2019”
پھر سب یونہی چلاتے ہوئے کیفے سے باہر بھاگے اور اپنی اپنی بائکوں پر باری باری سوار ہونے لگے۔ نور بھی عائزہ کی بائک پر بیٹھ گئی اور ان بائکوں کے پیچھے لپکی۔ سارا راستہ وہ سب ہونہی چلاتے رہے اور آتش بازی کرتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ سب اپنےگھروں کو روانہ ہو گئے۔ ڈنر تو وہ سب پہلے ہی کر چکے تھے۔ عائزہ نے بھی نور کو قریباً ایک بجے تک گھر چھور دیا۔
٭٭٭
گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ نور نے اسے نعمت سمجھا اور فورا ًاپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگی کہ اچانک آواز آئی۔
"نور! کیا وقت ہو رہا ہے؟" مریم ہاتھ باندھے اس کے پیچھے ہی کھڑی تھی۔ نور زرا نہ ٹھٹکی، وہ جانتی تھی گھر کی وارڈن صاحبہ اس کے انتضار میں ضرور بیٹھی ہونگی۔
" ہاں یہی تو میں سوچ رہی تھی کہ زرا وقت دیکھو اور تم ابھی تک جاگ رہی ہو؟ چچ چچ! تمہے ابھی تک سو جانا چاہئے تھا۔" مریم ابھی تک اسے ویسے ہی دیکھ رہی تھی۔طنظیہ نظروں سے۔
"جوتے کہاں ہیں؟"
"وہ مجھے راستے میں ایک غریب عورت ملی۔ اسے دیکھ کر مجھے اس پر بہت ترس آیا۔ میں نے سوچا میرے پاس تو بہت ہیں، یہ والی اسے دے دیتی ہوں" مریم ابھی بھی اسے ویسی ہی مشکوک نظروں سے دیکھے جا رہی تھی۔ چند لمحے گزرے اور نور خود ہی بول پڑی۔
"کیا یار! وہ چھیڑ رہا تھا مجھے۔ اس نے مجھے غصّہ دلایا تھا۔"
"اور تم غصّہ ہو گئی۔ واہ! نور کتنی دفعہ کہا ہے کہ سب لوگ تمہارا مزاق بنانے کے لئے یہ سب کرتے ہیں۔کل جب ہم مال گئے تھے، وہاں بھی تم ایک آدمی سے لڑنے کھڑی ہو گئی تھی اور اب پھر؟" چہرے پر واضع غصّہ تھا۔" کیا وہاں باقی کوئی بھی نہیں تھا جو تمہارے لئے لڑتا؟"
"تھے نہ۔ سب تھے۔ لیکن مجھے کسی پر بھی بھروسہ نہیں ہے۔" پھر مریم کو گلے لگایا۔
"سا تھ ہی مسکرائی۔Happy New Year 2019”
"یو ٹو!" پھر اسے پیچھے کیا۔"دادی جان تمہارا انتظار کرتے کرتے سو گئیں۔ انہیں تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔"
"کیا بات؟" نور کو تجسس ہوا۔
"یہ تو اب وہی بتائیں گی۔ گڈ نائٹ!" کہہ کر مریم اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ نور وہیں کھڑی کچھ دیر سوچتی رہی پھر وہ بھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭٭٭
اسلام آباد میں وہ صبح روشن اور ترو تازہ اتری تھی۔ ٹھندی رات کے بعد نکلنے والا گرم سورج دن کی خوبصورتی بڑھا رہا تھا اور سردیوں میں سورج دل کو ایک عجیب سی خوشی دے رہا تھا۔
کمرے کا دروازہ زور زور سے بجایا جا رہا تھا۔ نور کی سرخی مائل آنکھین کھلیں۔
"کون ہے؟" نیند بھری آواز میں پوچھا۔
"میں ہوں، عمران چاچا۔ نور بیٹا ناشتہ تیار ہے اور دادی جان ٹیبل پر آپکا انتظار کر رہی ہیں۔" خانساما نے حسبِ عادت اسے ناشتے پر بلایا۔
" اچھا آرہی ہوں۔"بڑی سنہری آنکھوں میں اکتاہٹ ابھری۔
اٹھتے ہی سب سے پہلے شیشا دیکھا، تراشیدہ بھورے بال باندھے۔ پھر غسل خانے کا رخ کیا۔ جب کچھ دیر بعد نکلی، تو حالت پہلے سے قدرے بہتر معلوم ہوتی تھی۔ کپڑے تبدیل تھے اور بالوں میں ہلکے رولز بنے تھے، جیسے کہیں جانے کی تیاری ہو۔ سنہری آنکھیں اب کچھ دیر پہلے کی طرح سرخ بھی نہیں تھیں۔
"اسلام علیکم دادی جان!صبح بخیر۔" نیچے جاتےسب سے پہلے سادہ سفیدشلوار قمیض میں ملبوس نفیس عورت کے گلے لگی۔
"والیکم اسلام میری جان! کل رات کہاں تھی؟" وہیل چئر پر بیٹھی بوڑھی مگر خوبصورت سی عورت نے پوچھا۔
(داد ی جان کے روز کے سوال جواب کا سیشن شروع، اْف!)
"کہیں بھی نہیں۔ بس عائزہ کے گھر تھی۔ پپرز کی تیاری کر رہے تھے۔" نظریں چراتے ہوئے دادی جان کے سامنے آ بیٹھی۔
"پیپرزتوتمہاری ابھی کچھ دن پہلے ہی ہوئے ہیں" دادی جان نے آنکھیں سکیڑکر نور کی آنکھوں میں جھانکا۔
"سچ کہ رہی ہو نا؟" مسکراتے ہوئے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"نہیں یہ جھوٹ ہے۔ میں اپنے کلاس میٹس کے ساتھ نیو ائیر نائٹ سلیبڑٹ کر رہی تھی۔" پھر لمحے بھر کو رکی۔" بائے دا وے! آپ کو مجھے کچھ کہنا تھا کیا؟ مریم کہہ رہی تھی۔"
"ہاں کہنا تو تھا۔" پھر رکیں۔ چائے کا کپ لبوں سے لگایا، جیسے الفاظ چن رہی ہوں۔" وہ۔۔ تمہارے سکندر تایا اپنی فیملی کے ساتھ کچھ دن کے لئے آ رہے ہیں۔"
نور کے ٹوسٹ پر جیم لگاتے ہاتھ رکے اور بے یقین نظروں سے دادی کو دیکھا۔
"impossible"تایا جان؟ بغیر چھٹیوں کے؟ اور وہ بھی فیملی کے ساتھ؟۔۔۔!
"ہاں وہ سب چند دن بعد آ رہے ہیں۔"
"مگر کیوں؟" نور کو دھجکا لگا تھا۔
"کیا مطلب کیوں؟ ان کی جب مرضی آ سکتے ہیں۔" دادی جان کو نور کا لہجہ کچھ عجیب لگا۔
"میرا مطلب ہے کہ تایا جان تو ٹھیک ہیں مگر تائی جان، اور عثمان بھائی اور حبیب؟ یہ سب تو جب سے گئے ہیں آج تک نہیں آئے۔ جب بھی ملنا ہوتا تھا تو آپ امریکا چلی جاتی تھیں۔ اب ایسا کیا ہے کہ وہ سب یوں اچانک آ رہے ہیں؟"
"یہ تو اب اْن کے آنے پر ہی پتہ چلے گا۔" کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
نور نے ناشتہ وہیں چھور دیا۔ کچھ تو تھا جو اْسے کتراتا تھا۔ اس سب میں کہیں کچھ عجیب تھا۔
٭٭٭
سوشولوجی کی کلاس تھی اور نور ہمیشہ کی طرح سر بلال کو دلچسبی سے سن رہی تھی۔ وہ اس کا پسندیدہ سبجیکٹ تھا اور سر بلال کا پڑھانےکا طریقہ اسے اور دلچسب بناتا تھا۔
"سو سٹوڈنٹس! یہ میری آپ کے ساتھ اس سمسٹر کی آخری کلاس ہے۔ اسائمنٹس کی ڈیٹیلز آپ کورڈینیٹر کے آفس سے وصول کر لیں اور اگلے جمعہ تک سب اسائمنٹس سبمیٹ بھی کر والیں۔ " پھر رکے۔"اب آپ سے انشا اللہ اگلے اور آخری سمسٹر میں ہی ملاقات ہوگی۔"
کہہ کر وہ کلاس سے نکل گئے۔
نور کواحساس ہوا کہ اِرتضی کب سے اسے غصّے سے گھورے جا رہا ہے۔ شاید وہ اب بھی رات والے واقعے پر غصّہ تھا۔ نور کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔لمحے بھر کو اسے دیکھی، پھر واپس منہ مور لیا۔ اسے بلکل پرواہ نہیں تھی۔
کچھ دیر بعد نور عائزہ کے ساتھ کورڈینیٹر کے آفس کے باہر موجود تھی۔ نور کے چہرے پر موجود غصّہ اور ماتھے پر پڑے بل واضع تھے۔ عائزہ دل کھولے ہنسے جا رہی تھی۔
"یہ کس قسم کا ٹاپک ہے؟ اس کا تو ہمارے کورس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں! " نور منہ بسورتے بول رہی تھی۔
"کس نے کہا تھا ارتضی کے ساتھ یوں کرنے کو؟ تم کارڈینیٹر کے بھتیجے کو سب کے سامنے بے عزّ ت کرو اور وہ تمہارے ساتھ اچھا کرے؟۔ نہ تم اسے سب کے سامنے یوں شرمندہ کرتی اور نہ تمہے ایسا ٹاپک ملتا۔ ہا ہا ہا!"
عازہ بڑا سا منہ کھولے ہنسے جا رہی تھی اور نور پریشان۔ ارتضی دور سے کھڑے اسے دیکھ رہا تھا۔
"اب تم ہنسنا بند کرو ورنہ میں چلی جاؤں گی۔"
مگر عائزہ پر اس کی دھمکی کا قطعاًٍ کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ ویسے ہی ہنستی رہی ۔ نور اٹھ کر جانے لگی اور عائزہ اس کے پیچھے کو لپکی۔
٭٭٭
یونی سے واپس جاتے ہوئے ایکسپریس وے پر نور ٹریفک میں پھنس گئی۔ گاڑی بند کر کے نور وہیں بیٹھ گئی۔
اچانک کھڑکی پر دستک ہوئی۔ نور نے دیکھا وہاں ایک بوڑھی ضعیف عورت کھڑی تھی۔ سر پر سیاہ ڈو پٹہ پہنے ، عورت کے چہرے پر جھڑیاں اور آنکھوں تلے سیاہ ہلکے واضح تھے ۔ سفید بالوں کی لٹیں ڈوپٹے سے باہر کو نکلی تھیں۔دیکھنے پر اسے وہ عورت قدرے عجیب لگی۔نقش ونین بھی قدرے مختلف تھے۔
نور کو اس ضعیف عورت پر بے پناہ ترس آیا۔ نور نے اپنے والٹ سے کچھ پیسے نکالے ، شیشہ نیچے کیا اور ہاتھ با ہر نکالا۔
"یہ لیں۔" مسکراتےہوئے ہاتھ آگے کیا۔ مگر پیسے تھامنے کے بجائے وہ عورت نور کوعجیب نظروں سے دیکھے جا رہی تھی۔ نور کو کچھ عجیب محسوس ہوا۔
"کیا؟" ماتھے پر بل پرےاور بڑی آنکھوں میں تحیّر سا ابھرا۔
عورت نے نظریں پیسوں پر جھکائیں۔ پھر ہاتھ آگے کیا۔ مگر پیسے لینے کے بجائے نور کی کلائی کو پکڑ لیا۔
نور نے اس ضعیف عورت کی آنکھوں میں دیکھا تو اس عورت کی پتلیا ں سکڑ گئیں جیسے نہ ہونے کے برابر۔ نور ڈر کر جھٹکے سے پیچھے کو ہوئی مگر بڑھیا نے کلائی ویسے ہی پکڑے رکھی۔ کلائی اتنے زور سے پکڑی گئی تھی کہ نور کو درد ہونے لگا۔ نور نے بازو پیچھے کو کھینچنا چاہا مگر کچھ فرق نہ پڑا۔
"چھوڑو! مجھے درد ہو رہا ہے۔ چھوڑو!" وہ چلّائی۔بیچ سڑک پر یوں چلانا بھی غیر مناسب لگ رہا تھا۔
نور نے اپنا پورا زور لگایا ، تو اس بڑھیا نے خود ہی ہاتھ چھوڑ دیا۔ بڑھیا نے اب دوسرا ہاتھ گاڑی کے اندر کیا اور ہاتھ میں موجود کاغذ نور کے ہاتھ میں تھمایا۔ نور نے محسوس کیا کہ بڑھیا کی آنکھوں کی پتلیاں واپس ویسے ہی ہو گئی ہیں جیسے عام انسان کی۔ بڑھیا چبھتی ہوئی مسکرائی اور قدم قدم پیچھے ہوتی گئی اور گاڑیوں میں کہیں غائب سی ہو گئی۔
نور نے اپنی گود میں پڑے کاغذ کو دیکھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کاغط کو اٹھا کر باہر پھینک دے مگرچاہ کر بھی اسکے اندر اتنی ہمّت نہیں آ رہی تھی کہ گود سے کاغذ اٹھائے۔ نا جانے کیوں؟
نور کو احساس ہوا کہ اس کی لین کی گاڑیاں کب سے آگے چلی گئی ہیں اور اس کے پیچھے والی گاڑیا ں کب سے ہارن بجائے جا رہی ہیں۔ اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور آگے نکل گئی۔
٭٭٭
گھر پہنچتے پہنچتے شام ہونے کو تھی۔ آہ!سردی کے چھوٹے دن اور لمبی راتیں۔ مالی پورچ کے ساتھ اْگے کشادہ باغیچے میں موجود پودوں کو پانی دے رہا تھا۔باغیچے میں اونچے اونچے درخت اْگے تھے۔ جن کے نیچےبیٹھنے کے لئے بینچ پڑے تھے۔
گھر پہنچ کر بنا کسی سے بات کئے وہ اپنے کمرے کی طرف دوڑی۔ جو ابھی اس نے دیکھا تھا، اس کے بعد وہ اس حالت میں نہیں تھی کہ کسی سے بات بھی کرے۔ڈھلتی ٹھنڈی دھوپ میں بھی اسے اپنے ماتھے پر پسینہ محسوس ہو رہا تھا۔
وہ اس بڑھیا سے ڈری نہیں تھی مگر یہ شاک تھا یا کیا جو اسے کاٹ رہا تھا۔
کمرے میں جاتے ہی اس نے یونی والا بیگ صوفے پر پھینکا اور ہاتھ میں پکڑا کاغذ دیکھا۔ اب سکون سے دیکھنے پر اسے اندازہ ہوا کہ یہ کو ئی کاغذ کا ٹکڑا نہیں تھی بلکہ ایک خط کا لفافہ تھا جو اس بڑھیا نے نور کے ہاتھ میں تھمایا تھا۔ یعنی وہ بڑھیا کوئی عام سائکوپیتھ نہیں تھی بلکہ وہ کسی خاص مقصد کے تحت نور کے پاس آئی تھی۔ وہ یقیناً نور تک کوئی پیغام پہنچانا چاہتی تھی۔
نور کا بے اختیار دل چاہا کہ اس خط کو دیکھے اور کھولے بغیر باہر پھینک دے مگر وہ کیا چیز تھی اس کے اندر جو ایسی کسی بھی چاہ کو بجا لا نے کے خلاف تھی۔ وہ چاہ کربھی نہیں پھینک سکی۔ اور دیکھتے دیکھتے خط لئے بیڈ پر آ بیٹھی۔
اس خط کے لفافے پر ایک خاص سیل لگی تھی۔ موم کی سیل۔ ایسی سیل یا تو اس نے 'ہیری پوٹر' کی موویز میں دیکھی تھی یا پھر کسی تاریخ پر مبنی ڈرامے میں۔نور کو یہ سب کچھ عجیب لگا، کیا یہ خط بیرونِ ملک کے کسی خاص ادارے کی طرف سے بھیجا گیا تھا؟کیونکہ پاکستان میں کوئی بھی عموماً خط نہیں بھیجتا اور سیل تو بلکل بھی نہیں کرتا۔ میل کا زمانہ تھا!
یا پھر یہ کوئی مزاق تھا؟یقیناً یہ کوئی بہت گھنونہ مزاق تھا، اور نور جانتی تھی یہ مزاق کون کر سکتا تھا۔ ارتضی کے علاوہ یہ سب کوئی نہیں کر سکتا تھا، اس نے یہ سب نور کو ڈرانے کے لئے کیا ہے۔
(ہونہہ اڈیٹ!! جیسے میں تو ڈر گئی ۔۔)
خیر! نور نے وہ خط پھارنے کے انداز میں کھولا۔وہ جانتی تھی اندر اس نے کوئی دھمکی دی ہوگی۔ مگر اس کے خیالوں کے بر عکس اندر ایک سفید صفحہ تھا جس کے وسط میں سیاہی سے چند الفاظ لکھے تھے:
سألتقي بكم في لآلئ العرب
(میں ملوں گا تم کو عرب کے موتی میں)
حيث توجد مياه ذهبية رائعة وأبراج شاهقة
(وہاں جہاں پھوٹے سنہراپانی ،اور سر بلندمیناروں میں)
تعال إلي ، أنا أستحقك
(آؤ میرے پاس کے میں ہی تمہارا حقدار ہوں)
تألق الماس فقط في أيدي مرتديها الماس
(ہیرا چمکے صرف ہیرا پہننے والے ہاتھوں میں)
اور اس کا دماغ تو جیسے بھک سے اڑ گیا۔ پہیلی بھی اس کاغذ پر پرنٹ شدہ نہیں تھی بلکہ وہ کسی نے خود سیاہی سے لکھی تھی۔ انتہائی خوبصورت اور میچورہینڈ رائٹنگ، جیسے کسی خطاط کی ہو۔ انتہائی سلیس عربی ،جیسے کسی عرب کی ہو۔ اس نے جلدی سے اس عربی شعر کی تشریح گوگل سے نکالی مگر تشریح بھی قدرے عجیب تھی۔ اسے سمجھ نہ آیا بھیجنے والا آخر کیا کہنا چاہتا ہے۔ اسے بس اتنا اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی شعر نہیں بلکہ ایک پہیلی ہے جو اسے بوجھنی ہے۔
کچھ نہ کچھ اسے کھٹک ضرور رہا تھا ۔ ارتضی جیسے لوگ، جنہوں نے بچپن کے علاوہ قرآن چھوا تک نہیں، اتنی سلیس عربی میں کچھ کیسے لکھ سکتے تھے اور اگر اس نے یہ کسی سے لکھوا بھی لیا، تو وہ عورت؟
وہ عورت ایسے عجیب طریقے سے کیوں بیہیو کر رہی تھی؟ اس کی آنکھیں کتنی پْر اسرار سی تھیں۔ اور مسکراتے ہوئے ، اس کی آنکھوں کی پتلیاں جیسے سکڑ گئیں، یہ کوئی عام انسان نہیں کر سکتا۔
پھر سر جھٹک کر سارے ابہام کو اپنے دماغ سے پڑے پھینکا۔ ابھی اس کی زندگی میں اور بھی بہت ضروری کام تھے اس سب کے علاوہ۔ جو بھی تھا وہ جانتی تھی کہ یہ سب ایک مزاق تھا۔
مگر یہ اس کی بھول تھی۔ ۔
٭٭٭
وہ صبح اونچے درختوں والے گھر پر بہت مصروف اتری۔ گھر میں ہر طرف کھانے کی خوشبو رچی بسی تھی۔ تمام ملازم گھر کی صفائی میں مصروف نظر آتے تھے۔ اور خانساماں کچن میں کھانا بناتے ہوئے۔
دادی جان ویل چیئر پر بیٹھیں ہاتھ میں سوئی اور گوٹ لئے سویٹر بن رہی تھیں، جبکہ مریم تمام ملازموں کو گائڈ کر رہی تھی۔
"یہ صوفہ یہاں کر دیں اور ٹیبل سامنے رکھ دیں۔"
دادی جان اور مریم اپنا ناشتہ کر چکے تھے۔ اب عمران چاچا ڈائننگ پر ناشتہ رکھے نور کو بلانے گئے تھے۔
نور نیچے آئی اور ملازموں کی یوں رَش دیکھ کر منہ بسورنے لگی۔ پھر یاد آیا کہ آج تو سکندر تایا نے آنا تھا اور ساتھ ان کی فیملی بھی۔ اس نے ابھی بھی رات کا لباس پہنا تھا، بس منہ دھلا دھلایا لگتا تھا۔
نیچے اترتے ہی دادی جان کے پیچھے سے گلے لگی اور سلام کیا۔دادی جان نے پیار سے اس کے نرم دودھیا گالوں کو چھوا۔ ہاتھ میں پکڑیی سوئی گوٹ میں باہم پھنسائی اور بنے ہوئے سویٹر سمیت سامنے پڑی ٹوکری میں ڈال دی۔ مریم ویسے ہی کاموں میں مصروف تھی۔
"وعلیکم اسلام! اٹھ گئی؟ نیند اچھی آئی؟"
"ہوں، بہت اچھی! تو آج آپ کے بیٹے اور چہیتے پوتے آ رہے ہیں، اسی لئے تو گال اتنے سوجے ہوئے ہیں، ہوں؟"
"میرے گال ایسے ہی پھولے سوجےہوتے ہیں، یہ خوبصورتی کی نشانی ہے،تم نے دیکھا ابھی ہے، ہونہہ!" ساتھ ہی نور کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی۔
نور مسکراتے ہوئے پیچھے ہوئی اور ٹیبل پر جا کر بیٹھ گئی۔ اس کے بریڈ سلائس اور مکھن اور جیم تیار پڑا تھا۔
"نور! اپنی تایا اور تائی کے سامنے اچھے سے بیٹھنا اور زیادہ باتیں نہیں کرنا اور حبیب اور عثمان سے بھی زیادہ فری مت ہونا۔" (آہ! بچپن والی پرانی عادت۔ مہمانوں کے آنے سے پہلے کا سارا " تنبیہہ نامہ" سنانا)
اس نے سر جھٹکا اور بریڈ پر مکھن تھوپنے لگی۔
"جی جی! یاد ہے مجھے سارے رولز ۔مگر تایا جان کوئی پہلی بار تھوڑی آ رہے ہیں؟ ہر ماہ آتے ہیں۔" اسے اعتراض تھا۔
"ہاں! مگر اس بار ان کے ساتھ ان کی فیملی بھی ہے۔ اور وہ سب سالوں بعد آ رہے ہیں۔ ان پر اپنا اچھا تاثر دینا۔ سمجھی؟"
اسنے اثبا میں سر ہلایا۔ مگر دراصل اس کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگی تھی۔ وہ ناشتہ کرنے لگی مگر زہن اب بھی اس خط پر اٹکا ہوا تھا، جسے وہ اب تک ڈی کوڈ نہیں کر سکی تھی۔
٭٭٭
چند گھنٹے آگے چلتے ہیں۔۔
نور اپنے کمرے کی بیلکونی میں کھڑی تھی۔صبح کے بر عکس، اس کا حلیہ کافی درست تھا۔ اس نے سیاہ شارٹ فراک کے نیچے جینز پہن رکھی تھی اور گلے میں سیاہ سکارف لے رکھا تھا۔ یہ دادی جان کا خاص حکم تھا کہ اب ان کے سامنے اچھے سے ڈوپٹہ لئے آنا ہے۔
باہر کار پورچ کا سارا منظر اسے وہاں سے دِکھ رہا تھا۔ دو بڑی گاڑیاں گیٹ سے اندر داخل ہوئی تھیں۔ جن میں ایک تو انہی کی تھی جبکہ دوسری غیر شناسا تھی، جس میں یقیناً وہ لوگ تھے۔
اسے دِل ہی دِل میں عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔ اتنے سالوں بعد حبیب سے اور عثمان بھائی سے ملنا۔
بیلکونی کا منظر ہواؤں میں تحلیل ہوا اور سامنے ایک اور منظر لہرایا۔ ایک یاد۔ یادِ ماضی!
"تم لوگ یہاں سے کیوں جا رہے ہو؟" چھوٹی معصوم دودھیا گالوں والی نور حبیب کے ساتھ پورچ کی سیڑھیوں میں بیٹھی، منہ مٹھیوں میں دیے اداسی سے پوچھ رہی تھی۔ عمر 7 سال لگتی تھی۔
"ممی نے کہا ہے کہ ڈیڈ کا ٹرانسفر ہو گیا ہے امریکہ میں!" موٹے سرخ گالوں والا حبیب بولا، جو قریباً 10 سال کا تھا ، مگر قد کاٹھ سے چھوٹا لگتا تھا۔
"واپس کب آوگے؟" ایک اور سوال۔
"پتہ نہیں! ممی نے کہا ہے کہ بس چند ماہ بعد آ جائیں گے۔" حبیب کا دل بری طرح دکھ رہا تھا۔
"حبیب ! میں نے رات کو سکندر تایا، غفار چچا اور دادی جان کو لڑتے سنا تھا۔"
حبیب زرا اس کے قریب ہوا اور کان میں کہا۔" میں نے بھی!"
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھے، پھر واپس نیچے دیکھنے لگے، اداسی سے۔
"ہاں یاد آیا! میں نے تمہے کچھ دینا تھا۔" حبیب کی سیاہ آنکھیں کچھ یاد آنے پر چوڑی ہوئیں۔
"کیا؟" نور نے اپنی سنہری آنکھیں سکوڑے پوچھا۔
منظر تحلیل ہوا۔۔ یادِ ماضی جیسے ہوا میں پھیلیں۔۔ داہنی آنکھ کے کنارے سے پانی کی بوند ہٹائی۔
اس نے دیکھا وہ سب پورچ کے زینے چڑھ کر اندر آ رہے ہیں۔ وہ پیچھے ہٹ کر نیچے کو دوڑی۔نیچے آؤتو مریم اور دادی جان مہمانوں کے استقبال میں کھڑے ہیں۔ نور کو زینے پھلانگتے دیکھ کر مریم نے بے اختیار آنکھیں نکالیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔ چہرے پر وہی مسکراہٹ!
پہلے سکندر تایا اندر داخل ہوئے(تینوں کو ساتھ کھڑا دیکھے مسکرائے) اورآگے بڑھ کر دادی جان کو گلےلگے، پھر مریم اور نور دونوں کو ہمہ وقت گلے لگایا۔ ساتھ ہی زرینہ تائی اندر داخل ہوئیں(ان کے چہرے پر بھی وہی پر خلوص مسکراہٹ در آئی)، وہ پہلے دادی جان کے گلے لگیں اور کچھ دیر تک دونوں ویسی ہی رہیں۔ پھر باری باری نور اور مریم کو گلے لگایا اور گال چومے۔ پھر ویسے ہی عثمان اور حبیب بھی داخل ہوئے۔ عثمان نے جینز کے اوپر سویٹر پہن رکھا تھا جبکہ حبیب نے جینز پر سیاہ سویٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ دونوں پہلے دادی جان سے ملے پھر چاروں نے سلام ایکسچینج کئے۔
لمحے بھر کو نور اور حبیب کی نظریں ملیں۔ مگر وہ بس ایک لمحہ ہی تھا۔ اور لمحہ گزر گیا۔
بھوری آنکھوں اور گندمی رنگ والا عثمان مسلسل مسکرا رہا تھا جبکہ سیاہ آنکھوں اورسفید رنگت والے حبیب کا چہرا قدرے سپاٹ تھا۔ سب آگے لاؤنچ میں بڑھ گئے اور نور وہیں اکیلی کھڑی رہی۔
(یہ دونوں کتنے بدلے ہوئے لگتے ہیں تصویروں میں، اور اصل میں کتنے مختلف!)
چہرے پر مسکراہٹ در آئی پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ آئی۔
کھانے تک سب یونہی خوش گپیوں میں مصروف رہے، ادھر ادھر کی باتیں، پرانی یادیں، گھر میں تبدیلیاں۔ پھر بیچ بیچ میں تھورا بہت زرینہ تائی بھی بول لیتیں۔ وہ ہمیشہ سے کم گو تھیں اور حبیب بھی ان پر گیا تھا۔
نور ان کی باتوں میں ذرا دلچسبی نہ تھی مگر دادی جان کی ہدایات پر اسے تب تک وہیں بیٹھنا تھا، جب تک کہ سب اٹھ نہ جائیں۔ منہ بسوڑتی وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ اس نے حبیب کو اپنی طرف دئیکھتے پایا ۔ مگر جونہی وہ اسے دیکھی، اس کی نظروں کو دوسری طرف پایا۔
مریم نے ملاظموں کے ساتھ مل کر کھانا لگا دیا تھا اور اب وہ سب کو بلا رہی تھی۔ نور موقع دیکھتے ہی وہاں سے رفو چکر ہونے لگی مگر مریم آنکھیں نکالتے، اس کا بازو پکڑے اپنے ساتھ لے گئی۔
٭٭٭
اڑتالیس (48) برس قبل:
یہ 1971ء کی بات ہے۔ قطر نے نئی نئی آزادی حاصل کی تھی۔ یہ دوحۃ کا ہی زکر ہے۔
بارش کے چند گھنٹوں بعد آسمان پر سرخی واضع تھی۔ ہلکی ہوا چل رہی تھی مگر گرمی پھر بھی ویسی ہی تھی۔ کھجور کے درخت کی شاخیں ہوا کے باعث ہلکی ہلکی تھر تھرا رہی تھیں۔
تبھی سنسان صحرا جیسی مٹّی میں جنبش ہوئی۔ اسی اڑتی مٹی پر سے کوئی پاؤں رکھے آگے کو دوڑا۔ قد میں چھوٹا، وہ کوئی بچہ تھا۔ روایتی شلوار قمیض پہنے، وہ اندھا دھن دوڑے جا رہا تھا۔ بھر پاؤں مڑنے کے باعث لڑھک کر اوندے منہ گرا۔ جلدی سے اٹھ کر پیچے دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ نہ بندہ، نہ بندے کی زات!
بچے کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا اور اس کی سرمئی رنگ قمیض بھی بھیگی تھی۔ لمحے بھر کو سانس لیا، پھر اٹھا اور راستے کے کنارے پر بنے درختوں کے جھنڈ بیچ جا بیٹھا۔وہ جو پھولے سانس کے ساتھ بازو چہرے پر ٹکائے پسینہ صاف کر رہا تھا، اس کی نظروں کے سامنے ایک منظر لہرایا۔ وہ منظر جو وہ کبھی تصوّر بھی نہیں کرنا چاہتا تھا، وہ آج دیکھ آیا تھا۔ قریب جاؤ تو دیکھو، اس کی آنکھوں سے پانی ٹپک رہا ہے۔ اس پانی کے اندر جاؤ تو سفید روشنی سی نظر آتی ہے۔ پھر اس روشنی میں سے ایک منظر واضع ہونے لگتا ہے۔۔
دروازے کی اوٹ میں ایک سرمئی قمیض والا بچّہ کھڑا ،منہ پیچھے کئے اندر جھانک رہا تھا۔
"تمہارا بچّہ کوئی نارمل بچہ نہیں ہے، وہ پاگل ہے،اس کا دماغ ٹھیک سے کام بھی نہیں کرتا۔ جب وہ لوگ تمہارے بچّے کا علاج کرنے اسے لےجانا چاہ رہے ہیں تو تم راستے میں کیوں ڑوڑے اٹکا رہی ہو؟" خالص عربی میں ایک پختہ عمر آدمی چلاّچلاّکر ایک عورت کو کہہ رہا تھا۔
"نہیں، میرا بچّہ بلکل ٹھیک ہے بلکہ وہ کوئی عام بچّہ نہیں ہے۔ اس میں' خاصیت 'ہے۔(چہرے پر بےاختیارآنسو ٹپکے) میں نے ان گوروں کا بھیجا ہوا خط پڑھا تھا۔ اس میں انہوں نے میرے بچے کو بیچنے کی بڑی قیمت لگائی تھی۔ لالچی ہو گئے ہو نہ تم؟(باہر کھڑے بچے کے چہرے پر بہت سارے آنسو ایک ساتھ برسے)سوتیلا بیٹا جو ہے، ہے نا؟" آدمی کے ماتھے سے شکنیں غائب ہوئیں۔ اس نے ایک تھپّر مار کرعورت کو گرایا۔
"وہ لوگ بس آنے ہی والے ہوں گے، اور وہ۔۔اسے۔۔لے۔۔جائیں ۔۔گے۔"چباچباکر ایک ایک لفظ اداکیا۔
"میرے بیٹے کو لے جانے سے پہلے انکو مجھے اس دنیا سے رخصت کرنا ہوگا۔" وہ چلاّکر بولی۔ بچہ دبی آواز کے ساتھ روئے جا رہا تھا۔
"چپ رہو!" آدمی نے عورت کا سر پکڑ کر بے اختیار دیوار سے ٹکّر دی۔عورت کا سر پھٹ گا مگر جتنے زور سے ٹکر دی گئی تھی، صاف ظاہر تھا کہ اب شایدہی زندہ بچ جائے۔ عورت بے اختیار لڑھک کر گری۔ چہرہ دروازے کی اوٹ پر کھڑے بچے کی طرف تھا جو اس کے گِرنے کے باعث ڈر کر ماں کے پاس بھاگ آیا تھا۔آدمی ایک جھٹکے سے پیچھے کو ہوا۔
"بھاگ۔۔جاؤ۔۔واپس ۔۔مت۔۔" اور جیسے موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کر گیا تھا۔ آخری الفاظ جیسے منہ میں ہی رہ گئے۔
بچّہ طیش میں مڑا اور سوتیلے باپ کو شولہ وار نظروں سے دیکھا۔ مگرکچھ کہے بغیر وہاں سے بھاگا۔ باپ تیزی سے پیچھے کو بھاگا مگر بچے نے سامنے پڑی میز نیچے گرا کر اس کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی۔پھر بھاگا یوں کہ پیچھے کی کوئی خبر نہ ہو۔ یوں کہ آگے کا کوئی اندازہ نہ ہو۔ دائیں ،بائیں کی تشویش سے بے خبر۔ بس اندھادھن!
آنکھ سے ایک اور آنسو ٹپکا اورگال پر اٹکے اس آنسو کو بھی بہا لے گیا۔ یہ یاد بھی گو مٹ گئی۔ مناظر ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ اندھیرا پھر نظر آنے لگا ہر طرف مگر جھاڑیاں اور درخت اس کے راضدار بنے رہے اور اپنے اندر اس کو چھپا لیا۔
وہ نہیں جانتا تھا اب آگے کیا کرنا ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ مگر بس اب ایک مقصد تھا دماغ میں۔۔ اسے کیسے اور کب پورا کرنا ہے یہ اب اسے وقت بتائے گا۔
عَبدالرّزاق نے اب اپنا انتقام لینا تھا۔ ۔
٭٭٭
جنوری کے پہلے عشرے کی نازک ٹھنڈ کی اس دوپہر کو ،بادلوں نے چھپا رکھا تھا۔ ہر طرف بادلوں اور ٹھنڈ کا راج تھا۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی کے باعث ٹھنڈ ہڈیوں میں درد کرتی تھی۔
تبھی نور العرش کی دادی جان کے کمرے میں ہیٹر کے باعث ماحول گرم تھا۔ دادی جان اور مریم پلنگ پر، جبکہ سکندر ، زرینہ اور عثمان سامنے صوفہ پر بیٹھے تھے۔ آگے میز پر چائے اور بسکٹ پڑے تھے۔ دروازہ بند تھا۔
تبھی دروازے کے باہر جھانکو تو نور کان لگائے کھڑی کچھ سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ پورا دھیان دروازے کے اندر ہونے والی خفیہ گفتگو پر لگائے ، وہ آنکھیں میچے فوکس کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"یہ کیا ہو رہا ہے؟"
"شش، چپ کرو!" نور نے ٹوکا۔ پھر آنکھیں کھلیں اور چہرے پر ایک سایہ لہرایا۔ کمر سیدھے کرکے ، پیچھے مڑی تو حبیب کو کھڑے پایا۔ وہ ہاتھ باندھے اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا، ویسی ہی جیسےوہ بچپن میں اسے کسی کاروائی میں پکڑے دیکھتا تھا۔
"تم چھپ چھپ کر ان کی باتیں سن رہی ہو؟" آنکھیں سکیڑے پوچھا۔
"نن۔۔نہیں! میں تو بس سننا چاہ رہی تھی کہ اندر کیا بات ہو رہی ہے۔"
" مگر چھپ کر!"مسکراتے ہوئے تصحیح کی۔ نور کی پیشانے پر بے اختیار بل پرے۔( اس کی اتنی ہمت!)
"تمہے کیا ہے؟ تم بھی تو یہاں کھڑے سن رہے تھے؟" تبھی دروازہ کھلا اور مریم مسکراتے ہوئے باہر آئی۔ سیاہ پاجامے پر میرون قمیض اور ڈوپٹا اوڑھے وہ دمک سی رہی تھی۔
" تم دونوں یہاں؟" ان کو دیکھتے ، مسکراہٹ سمٹی۔
"جی! نور چھپ کر آپ لوگوں کی باتیں سن رہی تھی اور میں عثمان کو بلانے آیا تھا، اس کا موبائل کب سے بج رہا تھا۔" موبائل کی ٹون بجی اور وہ جلدی سے کمرے کی طرف بڑھا۔ اور نور کا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔
"یہ بکواس۔۔" مریم نے غصّے بھری نظر اس پر ڈالی۔ وہ خاموش ہو گئی۔
"بس کچھ بھی ہو جائے، تم نے ہر کسی کے آگے اپنا امپریشن خراب کرنا ہے!" کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی اور نور شرمندہ سی وہیں کھڑی رہ گئی۔ (یہ میرے ہاتھوں مرےگا!!)
٭٭٭
رات گہری ہو رہی تھی۔ بادل اب بھی سیاہ آسمان پر منڈلا رہے تھے۔ گھر کی تمام بتیا ں بجھی تھیں سوائے مریم کے کمرے کے۔ نور کے بلند بانگ قہقوں کی آوازیں کمرے کے باہر بھی سنائی دے رہی تھیں۔
"اللہ! مجھے یقین نہیں آ رہا۔ تم(اینگلی سے اْس کی طرف اشارہ کیا) اور عثمان بھائی(اْسی انگلی سے دروازے کی طرف اشارہ کیا)" پھر قہقہہ مارے ہنسنے لگی۔"سکندر تایا نے یہ سوچ بھی کیسے لیا؟"
"نور! بس اب زیادہ ہنسو مت۔ اس میں کیا غلط ہے؟" اس نے مرا مانا ھا۔
"نہیں، غلط تو کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن تم اور عثمان بھائی۔۔ کوئی میچ ہی نہیں ہے۔ " ہنسنے لگی۔
"ہونہہ! مجھے نیند آ رہی ہے۔ اب جاؤیہاں سے۔" منہ پر کمبل ڈال لیا، وہ اب اس کی باتوں سے اکتا گئی تھی۔
نور ویسے ہی ہنسنے لگی۔ پھر اس کے موبائل پر ایک ٹون بج جو عموماً میل آنے پر بجتی ہے۔ اس نے میل کھولی۔
کی طرف سے تھی۔ American Sociological Association یعنی ASA وہ
دنیا کی سب سے بڑی سوشیولوجی آرگانائزیشن ہے جو دنیا بھر میں سو شیولوجی کو پروموٹ کر رہی ہے۔)American Sociological Association)
اس کا دماغ بھک سے اْڑ گیا۔اتنی بڑی آرگانائزیشن اسے کیوں میل کر رہی ہے؟ اس نے جلدی جلدی میل کھولی۔
"صبح بخیر!
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گی۔
یہ میل آپ کو" اے۔ایس۔اے "کے ہیڈ آفس کی جانب سے بھیجی گئی ہے۔ سوشیو لوجی کی سٹوڈنٹ ہونے کے ناطے ،آپ یقیناً ہم سے واقف ہونگی۔اے-ایس-اے دنیا کی سب سے بڑی سوشیولوجیکل آرگانائزیشن ہے۔ ہمارا بنیادی مقصد سوشیولوجی کو فروغ دینا ہے اور آج ہم دنیا بھر میں سوشیولوجی کا ایک واضع اور معروف چہرہ ہیں۔ہم کئی برسوں سے دنیا بھر میں سماجیات کو پروموٹ کر رہے ہیں اور بلاشبہ کرتے رہیں گے۔
چونکہ ہم دنیا بھر میں اب اپنی برانچز کھول رہے ہیں، سو اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم کچھ ہی مہینوں میں اپنی ایک برانچ 'دوحۃ' میں بھی کھلوا لیں جس سے ہمیں وہاں بھی اپنے موٹو پہنچانے میں آسانی ہوگی۔ اس سلسلے میں ہم وہاں کے لئے سٹاف دھوندڈرہے ہیں۔ ہمیں چند فریشرز درکار ہیں۔
آپکا اکیڈمک ریکاڑڈ دیکھنے کے بعد ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ آپ اس جاب کو ڈیسرو کرتی ہیں۔ اگر آپ کو اس سلسلے میں کوئی دکت نہ ہو تو نیچے دئے گئے لِنک پر کلک کریں اور فارم فل کریں۔
شکریہ
اے۔ایس۔اے"
نور تو خوشی سے پھولا نہیں سما رہی تھی۔ اس نے خوشی کے مارے مریم کو ہلا کر اٹھانا چاہا، مگر وہ گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔ وہ جلدی سے اٹھی اور اپنے کمرے کی طرف دوڑی۔
(کیا اچھا دن ہے آج!)
اپنے بستر پر بیٹھتے ہی اس نے دو بار پھر وہی میل پڑی کہ کہیں فیک تو نہیں مگر خوشی اتنی تھی کہ پڑھا بھی نہیں جا رہا تھا۔ اس نے جلدی سے نیچےبنے لنک پر کلک کیا ۔ ایک فارم سا ڈاؤنلوڈ ہوا۔ اس نے جلدی سے کھولا مگر وہ خالی تھا۔
اس نے برا سا منہ بنایا اور فارم دوبارہ بھیجنے کی درخواست کی۔
لمحے بھر کو دل میں خیال آیا کہ جا کر مریم کو بتائے، مگر پھر اس گمان کہ تحت کہ ابھی تو صرف میل آئی ہے اور فارم بھی فل نہیں ہوا ، واپس بیٹھ گئی۔(اللہ! اف ! اف! اف! نور قطر جا رہی ہے۔ کیا بات ہے!)
پھر اسے اپنا یونی کی اسائمنٹ یاد آگئی اور وہ واپس منہ بنائے بیٹھ گئی۔ جمعہ میں صرف دو دن باقی تھے۔
٭٭٭
پچھلے دن کی ہلکی بارش کے بعد آج اسلام آباد میں سورج کا راج تھا۔ سارا شہر دھوپ میں نہایا دھویا تھا۔
شہر بھر میں ناشتہ کب کا ختم ہو چکا تھا۔ اور روزمرّہ کے کاموں کا باقعدہ آغاز ہو چکا تھا۔
نور اترے چہرے کے ساتھ باغیچے اور پورچ کی مشترکہ سیڑھیوں پر بیٹھی تھی جہاں وہ صرف تب بیٹھا کرتی تھی جب وہ خفہ ہوتی تھی۔ رخ باغیچے کی طرف تھا۔ ساتھ ہی کاغذوں کا ایک ڈھیڑ، لیپ ٹاپ پین اور نوٹ پیڈ وغیرہ پڑا تھا۔ منہ، ہتھیلی پر ٹکائے، وہ اداس چہرے ساتھ کسی سوچ میں گم تھی۔
"سنا تھا بچپن کی عادتیں کبھی نہیں بدلتیں۔ آج دیکھ بھی لیا۔" سیاہ ٹراؤزر کے اوپر ہڈی پہنے جیبوں میں ہاتھ ڈالے حبیب اس کے پیچھے کھڑا تھا۔ نظریں سامنے باغیچے پر جمی تھی۔ نور نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"کوئی پرابلم ہے کیا؟ تم بچپن میں بھی یہاں صرف تب بیٹھتی تھی جب کوئی مسلئہ ہوتا تھا۔" ساتھ ہی آبیٹھا۔
"تم سے مطلب؟" اکھڑ لہجے میں بولا۔
"مطلب واقعی کوئی مسلئہ ہے۔ تم میرے ساتھ شئیر کر سکتی ہو۔" مسکراتے ہوئے کہا۔
"نیور! تم نہیں کر سکو گے۔" اداس لہجے میں کہا۔
"ٹرائے می!" سرگوشی سی کرتے اٹھنے لگا۔ نور یک دم بولنے لگی تو وہ رک گیا۔
"مجھے ایک پراجکٹ ملا ہے۔ مگر اس کا ٹاپک تھوڑا آؤٹ ہے۔ مجھے اس بارے میں کوئی آئڈیا نہیں ہے اور دو دن بعد سبمیٹ کروانا ہے۔" پھر چہرہ اداسی سےجھکا لیا۔ حبیب واپس بیٹھ گیا۔
"ہوں، دِس ساؤنڈز سیڈ!" پھر رکا۔" ویسے ٹاپک کیا ہے؟"
" اس نے جلدی سے ٹاپک کا نام لیا۔ Sociology of Dark Web Users"
"ہوں ! ویسے مجھے اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے بَٹ شاید میں تمہاری تھوڑی بہت ہیلپ ہی کر دوں۔" نور نے فوراً پیڈ اٹھا لیا۔
"نور! ڈارک ویب ان ویب سائٹس کو کہتے ہیں جو عام انسان کی نظر سے چھپی ہوتی ہیں۔ انٹر نیٹ کی دو تہہ ہوتی ہیں جیسے کہ
تہہ ہوتی ہیں۔" پھر رکا۔ وہ نوٹ کرتی گئی۔(Earth)ہماری ارتھ
"ایک تو سرفیس ویب ہوتی ہے جو عموماً ہم استعمال کرتے ہیں، جس میں عام سوشل میڈیا ویب سائٹس ہوتی ہیں۔ مگر یہ صرف انٹرنیٹ یا ویب کا ٪4 ہی حصّہ ہوتا ہے۔ باقی ٪96 حصّہ ڈیب ویب پر مشتمل ہے، جس میں ڈارک ویب بھی شامل ہے۔ یہاں تک رسائی کسی عام انسان کے لئے، عام براؤزرز سے نا ممکن ہے۔ اس کے لئے خاص براؤزرز استعمال کئے جاتے ہیں۔ جیسے"ٹور براؤزر"
نور غور سے اسے سن رہی تھی۔(TOR Browser(
"یہاں ڈاڑک ویب میں سارے اللیگل کام کئے جاتے ہیں، جیسے ڈرگز بیچنا، غیر قانونی ادوایات اور اسلحہ بیچنا ، انسانوں کا سودا کرنا، اور غیر کانونی طور پر ہیکنگ یا قتل کروانا وغیرہ۔" نور کی آنکھیں جیسےحیرانی سے کھل ہی گئیں مگر حبیب سنجیدگی سے بولتا رہا۔
"یہاں کےیوزرز کی کوئی آئڈنٹیٹی نہیں ہوتی۔ یہاں سب لوگ حکومت کی نظروں سے چھپ کر یہ سب کام کرتے ہیں، کیونکہ ڈارک ویب یوزر کو پکڑے جانے پر شدید سزا اور جرمانہ کیا جاتا ہے۔ اور ایک بار جو کوئی اس دلدل میں پھنس جائے، وہ دوبارہ وہاں سے نہیں نکل سکتا۔ یہاں کے تمام یوزرز زیادہ تر کرمنل مائنڈڈ ہوتے ہیں۔" نور یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔
نور پیڈ پر لکھ رہی تھی۔(نو آئیڈینٹیٹی۔ اللیگل۔ جرمانہ۔کرمنل مائنڈڈ)
"کیا اتنا کافی ہے؟" نور جیسے کسی خیال سے نکلی۔
"ہاں کافی ہے۔ مجھے کافی پوائنٹس مل گئے ہیں۔ ویسے تمہے یہ سب کیسے پتہ؟" مسکرا کر پوچھا۔ اس کا موڈ اب قدرے بہتر ہو گیا تھا۔
"ایکچؤلی! میرے پاس اک امرکیوں کا بنایا ہوا آلہ ہے، جسے موبائل کہتے ہیں۔ ار میں اس پر فیزبک اور نسٹاگرام کے بجائے گوگل یوز کرتا ہوں جو مجھے دنیا بھر کی معلومات لا کر دیتا ہے۔" وہ ہنس دی۔
"تھینک یو حبیب!" جلدی سے بولی۔
"مینشن ناٹ ڈوڈ! ویسے تم ایک دفعہ لائبریری وزٹ کر لو، ہو سکتا ہے تمہے وہاں بھی کچھ مِل ہی جائے۔" مسکراتے ہوئے بولا اور کہہ کر اٹھ گیا۔
نور مڑ کر اسے جاتا دیکھتی رہی۔ پھر مڑی اور کسی خیال کے تحت آنکھیں سکیڑ لیں۔
(کیوں نہ میں ایک دفعہ لائبریری بھی وزٹ کر ہی لوں۔۔۔ شاید وہاں بھی مجھے کچھ ریلیٹڈ بک مل ہی جائے)
پھر زہن سے خیال جھٹکا اور جلدی سے لیپ ٹاپ اٹھایا اور انگلیاں تیز تیز چلنے لگیں۔
٭٭٭
اگلی دوپہر ٹھنڈ ہلکی بڑھ گئی تھی۔ مری میں برف باری کے باعث اسلام آباد میں بھی ٹھنڈی برفیلی ہواؤں نے رخ کیا تھا۔ شہر بھر کے لوگ دل ہی دل میں یہی دعا کر رہے تھے کہ ایسی ٹھنڈ رمضان میں کیوں نہیں ہوتی؟ بشرِ لا مشکور!
نور اس وقت یونی کی لائبریری میں ادھر ادھر گھومے ، اس ٹاپک کی کتاب ڈھونڈے جا رہی تھی۔ ہاتھ میں پہلے سے دو کتابیں تھامے وہ دوسری بار ساری شیلفز چھان رہی تھے۔ وہاں مشکل سے دس طلباء ہونگے۔ سردیوں کی چھٹیوں کے باعث لوگ کم ہی یونی کا رخ کرتے تھے۔
اس نے ایک تھکی ہوئی آہ بھری اور آگے بڑھنے لگی۔
(اتنی بڑی لائبریری اور اس میں سوشیولوجی کا سرف ایک سیکشن۔ چچ چچ!)
تبھی گزرتے گزرتے، اس کے سر پر ایک بھاری کتاب دھرام سے گری۔ (آؤچ!)
ایک لڑکی عربی کے سیکشن سے لا پرواہی سے کتابیں نکال نکال کر دیکھ رہی تھی اور ایک کتاب نور کے سر پر کر پڑی۔
"نظر نہیں آتا تمہے؟" نور بھوکی شیرنی کی طرح چلائی۔ لایبریرئن نے پیچھے سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
"سوری غلطی سے گر گئی۔" لڑکی نور کی بگڑی شکل دیکھ کر جلدی سے معزرت کر کے آگے پیچھے ہو گئی۔
نور نے "ہونہہ بد تمیض!" کہہ کر غصّہ ٹھنڈا کیا اوراپنے ہاتھ میں موجود دونوں کتابیں بازومیں پکڑ کر زمیں سے کتاب اٹھائی۔ کتاب پرانی لگتی تھی۔ جلد ضعیف ہو چکی تھی اور اوپر قدرے دھول لگی تھی۔ پھوک مار کر دھول اڑائی تو کتاب کا نام واضع ہوا۔
"Bu Darya: The Devil of the Sea بو دریا: شیطان البحر۔۔۔"
نور نے آنکھیں مشکوک انداز میں سکیڑیں۔ پھر کتاب پر مصنف کا نام ڈھونڈنا چاہا۔ پہلے کَوَر پر، پھر پہلے صفحے پر، بیچ بیچ میں صفحات پلٹائے مگر جہاں جہاں مصنف کا نا لکھا ہوسکتا تھا۔ وہ جگہ پھاڑی گئی تھی۔لمحے بھر کو سوچا، پھر تینوں کتابیں اٹھائے وہ کاؤنٹر پر آگئی اور اِشو کر والیں۔ دیکھنے میں وہ کوئی ہسٹری فکشن لگتی تھی۔
٭٭٭
گھر پہنچ کر وہ مسکراتے ہوئے کار سے اتری۔ موسم اچھا تو موڈ بھی اچھا!
پورچ کے زینے چڑھ کر اندر جانے لگی مگر کچھ آوازوں نے اس کا دھیان کھینچا۔ وہ آوازیں دادی جان کے کمرے سے آ رہی تھیں۔ جو پورچ سے اندر داخل ہوتے ہی بلکل سامنے تھا۔
قریب جانے پر اسے اندازہ ہوا ، وہ آوازیں نہیں تھیں بلکہ صرف ایک آواز تھی۔ سکندر تایا کی آواز۔ وہ چلّا رہے تھے۔ اس نےتھوڑا اور قریب ہو کر کان لگایا۔
"اب وہ کیا چاہتی ہے؟ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی اسے چین نہیں آیا۔ سارے خاندان کو مصیبتوں میں ڈالنے کے بعد بھی اسے آرام نہیں ہے؟ "
"امّیّ! آپ اسے کیوں نہیں سمجھاتیں؟" یہ زرینہ تائی کی آواز تھی۔
"میں اسے بہت بار سمجھا چکی ہوں۔ مگر وہ اسی بات پر بضد ہے کہ اسے اپنا حصّہ اس گھر سے چاہیے۔ میں اسے بہت سمجھا چکی۔۔"
" پہلے بھی اسی کی ضد کے باعث ہم نے بھائی اور بھابھی کو کھویا اور دونوں بچیاں ہماری یتیم ۔۔" نور ایک جھٹکے سے پیچھے کو ہوئی۔
یہ سب کیا ؟ پہلے جتنی بھی باتیں ہوئیں ،اسے کچھ یاد نہ رہا۔ اس کا دماغ بس اس آخری بات پر اٹک گیا۔یہ یقیناً کوئی مزاق نہ تھا! کیا وہ حلیمہ پھوپھو؟اسے تو بتایا گیا تھا کہ وہ بس ایک حادثہاتی کار ایکسڈنٹ۔۔نا جانے ان لوگوں نے اسے اور کتنے کتنے جھوٹ بول رکھے ہیں؟اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کا دل بھی بھر آیا۔
وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف گئی اور اندر گھستے ہی کتابیں اور بیگ بیڈ پر پھینکا اور دروازے پر کنڈی لگائے ، اس کے ساتھ ٹک کر کھڑی ہوگئی اور آہستہ آہستہ نیچے گرتی سی گئی۔ آنسو جا بجا اس کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ رونے لگی۔
کئی دیر تک وہ وہیں بیٹھی رہی۔ پھر کسی خیال کے تحت اٹھی اور باتھ روم کی طرف بڑھ گئی۔ اندر جاتے ہی اس نے پانی کا نلکاکھول لیا۔ اور منہ پر یکے بعد دیگرے ٹھنڈے پانی کے چھٹّے مارے۔ٹھنڈ کے باوجود اسے وہ پانی ٹھنڈا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اسے تو کچھ بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ دل پر جس احساس کا غلبہ تھا، وہ صرف غم تھا، تکلیف تھی، دکھ سا تھا، کوئی کمی سی تھی۔۔
پھر منہ خشک کر کے باہر نکلی اور بیڈ کے کنارے پر آ بیٹھی۔ اور گھٹنوں میں سر دئے وہیں بیٹھی رہی۔
کئی لمحے سرکے۔۔۔
کئی پہر بیتے۔۔۔
اس کے اوپر جیسے غنودگی سی طاری تھی۔ مگر اس کی نیند کی چادر کو دروازے کی لگاتار دستک نے چیڑ ڈالا۔ ایک جھٹکے سے اس کی آنکھ کھلی۔
"کون ہے؟" اس نے اکتاہٹ سے پوچھا۔
"میں ہوں بیٹا، عمران ! نیچے کھانے پر سب آپکا انتظار کر رہے ہیں ۔" خانساماں نے باہر سے آواز دی۔
کھانہ؟ کیا وہ اتنی دیر سے ایسے ہی بیٹھی ہے؟ پھر نظر اٹھا کر گھڑی دیکھی۔ گھڑی 9 بجا رہی تھی۔
"جی میں آ رہی ہوں۔" آنکھیں مسلتے ہوئے کہا اورمنہ دھونے اٹھ گئی۔
آہ! انسوؤں کے بعد آنے والی سریلی میٹھی سی نیند۔ باہر نکل کراپنے آپکو کمپوز کیا کہ نیچے کسی کواسکا چہرہ دیکھ کر کچھ اندازہ نہ ہو۔ پھربتّی بجھا کر نکل گئ۔
٭٭٭
نیچے کھانے پر اس کا انتضار کیا جا رہا تھا۔ سب بیٹھے اس کا انتضار کر رہے تھے۔ اسے دیکھ کر سب کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔
"کہاں تھی نور تم؟ کب سے انتضار کر رہے ہیں سب۔! مریم اسے دیکھتے ہی منہ بنا کر بولیں۔
"کوئی بات نہیں! چلو نور تم شروع کرو!" سکندر تایا مسکرا کر بولے۔ یہاں کھانہ سب سے پہلے سب سے چھوٹا فرد شروع کرتا تھا۔
نور بغیر مسکرائے کرسی کھینچے بیٹھی اور چاول ڈالنے لگی۔
"مریم! عثمان اور حبیب گھر میں بیٹھ بیٹھ کر بور ہو گئے ہیں۔ تم کل انہیں کہیں باہر لے جانا۔ " زرینہ دھیمے لہجے میں بولیں۔ پھر رکیں اور مریم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔"یہاں کوئی فیسٹول وغیرہ نہیں ہوتا؟"
"نہیں ،ہوتے ہیں مگر میں زیادہ نہیں جاتی۔ نور اکثر جاتی ہے، اسے پتہ ہوگا، نور؟" نور کو دیکھے آنکھوں سے کچھ اشارہ سا کیا۔
"جی! ہفتے کی رات کو نیو ائر پارٹی ہے۔ " ایک بار بھی نظر نہیں اٹھائی۔ وہ جانتی تھی اگر نظریں اٹھائیں تو مریم او ر دادی جان اس کی نظروں سے اس کی کیفیت بھانپ لیں گے۔پھر بولی۔"اگر کہیں تو چلے جائیں گے۔"
"ہاں بلکل! عثمان تو اکثر پارٹیز وغیرہ میں جاتا رہتا ہے۔ حبیب کو بھی لے جانا حالانکہ وہ پارٹیز اوائڈ کرتا ہے لیکن پھر بھی۔کیوں حبیب؟" حبیب کی طرف نظریں بڑھیں۔
"جج۔۔جی! میں دیکھوں گا۔" ساتھ ہی مسکرایا اور نظر اٹھا کر نور کی طرف دیکھا۔ وہ بھی دیکھی۔ بس لمحے بھر کو دونوں کی نظریں ملیں پھر وہ واپس نیچے دیکھنے لگی۔
دادی جان اور سکندر تایا خاموش ہی رہے۔ عثمان مسلسل امریکہ کے قصّہ کہانیاں سناتا رہا۔ جس پر مریم اور زرینہ تائی کے علاوہ کسی نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ نور کھانہ کھا کر چپ چاپ اٹھ کر باہر باغیچے میں واک کرنے چلی گئی۔ ساتھ ہی خانساماں کو کوفی لانے کو کہا۔ باقی سب ویسے ہی بیٹھے رہے اور کھانے کے بعد سویٹ ڈش کا مزہ لینے لگے۔
نور باہر باغیچے میں واک کر رہی تھی۔ سادہ سبز پراک کے اوپر موٹا اون کا سویٹر پہنے ، جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ دائیں سے بائیں چکر کاٹ رہی تھی۔
باغیچے کو ڈھیروں لائٹوں نے روشن کر رکھا تھا مگر اسے اپنے اندر سیاہ آسمان سا اندھیرہ اترتا محسوس ہوا۔ جب بھی ماں باپ کا زکر سنتی ، یوں ہی ڈھیروں ڈھیر آنسو اس کی آنکھوں سے امڈآتے۔ خون کے رشتے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کتناہی دور کیوں نہ ہو جائیں۔ دل سے نکلی ایک پوشیدہ ڈور اْن سے جڑی ہوتی ہے!
(اللہ تعالی انسان کے ساتھ ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیوں ہمیشہ اسے بہت کچھ دے کر صرف اسی کے لئے تڑپاتا ہے جو اسے سب سے زیادہ چاہیے ہوتا ہے؟) اس نے سوچا۔
آہٹ پر اس نے جلدی سے آنسو پونچھے اور مڑی۔اسے لگا خانساماں کافی لیے آگیا ۔ مگر پیچھے تو حبیب کھڑا تھا۔ ہاتھ میں دو کافی کے مگ لئے۔ نور نے ایک مگ تھام لیا۔ ٹھنڈی رات میں گرم مگ کو پکڑے کافی ٹکوڑ ملی تھی۔
"میں ابھی کسی سے بات کے موڈ میں نہیں ہوں۔" یہ حبیب کے لئے جانے کا اِن ڈائریکٹ اشارہ تھا۔
"اوہ کم آن! کیا میں اتنا برا دوست ہوں جس سے تم اپنا غم بھی شئیر نہ کر سکو؟" مگ منہ سے لگاتے ہوئے بولا۔
" کیا مطلب غم؟ مجھے کونسا غم ہے؟ اسائمنٹ بھی تقریباً بنا لی ہے۔" ساتھ ہی پھیکا سا مسکرائی۔حبیب ہنوز اْسے مشکوک نظروں سے دیکھتا رہا۔
(اف اللہ!! کاش ساری دنیا اندھی ہوتی) ساتھ ہی دل ہی دل میں اس کی جانے کی دعائیں کیں۔
"اوکے میں چلا ہی جاتا ہوں۔ شاید میری موجودگی سے تم غیر آرام دہ محسوس کر رہی ہو۔" خفہ خفہ سا بول کر مڑنے لگا۔
نور جلدی سے بولی۔
"نہیں ایسی بات نہیں ہے۔(وہ رکا) مجھے ممی پاپا یاد آ رہے ہیں!" دل ہی دل میں بہت سے آنسو اتارے۔ اب وہ اس کے سامنے تھوڑی رو سکتی تھی۔
"ہوں! تو یہ بات ہے۔" پھر کافی کا ایک اور سپ لیا۔ چہرہ سنجیدہ کر لیا۔
"حبیب کبھی کبھی میں سوچتی ہوں اللہ تعالی ایسا کیوں کرتا ہے؟ ہمیں چیزوں کے لئے کیوں تڑپاتا ہے؟ وہ تو ہم سے بہت پیار کرتا ہے کیوں کرنے دیتا ہے؟ ہماری زندگی آسان کیوں نہیں بناتا؟" (sufferنہ؟ پھر ہمیں سفر(
دونوں دائیں سے بائیں چکڑ کاٹ رہے تھے۔حبیب ہلکا سا بس مسکرایا تھا۔
"نور مجھے بھی بچپن میں بہت زیادہ اللہ تعالی سے شکوہ رہتا تھا۔ لیکن پتا ہے پھر مجھے اپنے سارے شکووں کے تسلّی بخش جواب کیسے ملے؟" اس کی طرف دیکھا۔
"کیسے؟" وہ سامنے ہی دیکھتی رہی۔
"دیکھو جب ہمیں کسی سے شکوہ ہوتا ہے، تو ہم اپنا شکوہ اس سے بات کر کے ہی ختم کر سکتے ہیں نہ؟ تو میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ میں نے بھی اللہ سے بات کی اور پتا ہے اللہ تعالی نے میرے سارے شکوے بھی دور کر دیے۔"
"حبیب آخر کوئی اللہ تعالی سے کیسے بات کر سکتا ہے؟" اسے تسلّی نہیں ہوئی تھی۔چہرے پر اب بھی اداسی تھی۔
فرماتے ہیں کہ اگر تمہے اللہ تعالی سے بات کرنی ہو تو نماز پڑھو اور اگر اللہ تعالی کی بات سننی ہو تو قرآن پڑھو"علی "حضرت
پھر رکا۔" تم قرآن پڑھتی ہو نہ؟"
"ہا۔۔ہاں روز پڑھتی ہوں۔" حبیب کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لئے اس نے جھوٹ بولا۔
"ہوں گڈ! نور یہ زندگی اللہ تعالی نے امتحان کے طور پر دی ہے اپنے بندوں کو۔ مگر تمہے اس امتحان کو صبر سے پاس کرنا ہوگا۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتےہیں کہ 'بیشک! صبر کرنے والوں کو ان کا انعام ضرور ملتا ہے'، اور جب اللہ تعالی تمہے خود یہ بات کہہ رہےہیں تو پھر انسان اتنا جلد باز کیوں ہے؟" پھر رکا اور مگ سے آخری گھونٹ بھرا۔
"اور جہاں تک بات سفرکرنے کی ہے تو وہ سفر نہیں ہوتا، آزمائش ہوتی ہےاوراللہ تعالی تو اپنے سب سے پیارے بندوں کو ہی آزمائش میں ڈالتا ہے نہ تاکہ وہ انہے آزما سکے کہ وہ اسکے ساتھ کتنے لایَل ہیں۔"
"اور میں اس آزمائش کو کیسے پاس کروں؟ " اس نےمگ لبوں سے لگایا۔ کافی اب تھوڑ ی ٹھنڈی ہو چکی تھی۔
"صبر اور برداشت کر کے!" پھر رکا اور اپنے خالی مگ کو دیکھا۔" لیکن چونکہ لڑکیاں بہت بے صبری ہوتی ہیں ،اس لئے تم فیل ہو گئی ہو، چچ چچ!"
بغور ایک ایک بات سنتی ہوئی نور جیسے کسی خیال سے نکلی۔ ایک زور دار مکاّ اس کے بازو پر رسید کیا۔ اپنی عادت سے مجبور!
"اور تم لڑکے بے حد بد تمیز ہوتے ہو!" منہ بسورتے ہوئے کہا۔
"گڈ نائٹ!"کہہ کر حبیب ہنستے ہوئے زینے چڑھ کر اندر چلا گیا۔ اور وہ بس پیچھے کھڑی مسکراتی رہ گئی۔ اس نے دیکھا، بچپن کے برعکس حبیب کا قد کافی لمبا ہو گیا ہے۔
اس کے مگ میں اب بھی تھوڑی سی کافی بچی پڑی تھی۔ مگر ٹھنڈی تھی۔
آج بہت وقتوں بعد اسے جیسے کسی چیز پرتسلّی ہوئی تھی۔ حبیب سے بات کر کے اسے جیسے اطمینان سا آ گیا تھا۔
ایک سکون سا سکون تھا۔۔۔
٭٭٭
جمعہ کی صبح قدرے گرم اتری تھی۔ نور صبح سے یونی آئی ہوئی تھی۔ اسائمنٹ رات کو ہی مکمل کر کے سوئی تھی۔ رات کو حبیب سے بات کے بعد اسے کافی سکون تھا۔
وہ کارڈینیٹر کے آفس کے باہر بیٹھی انتظار کر رہی تھی۔ اندر کچھ مہمان تھے اور جب تک وہ نہیں جاتے، کارڈینیٹرصاحب مصروف تھے۔ اچانک اندر سے دو آدمی باہر نکلے۔ دونوں پختہ عمر کے لگتے تھے۔ نور نے سکھ کا سانس لیا۔
اپنی اسائمنٹ جمع کروانے کے بعد وہ یونہی باہر پارک میں آ بیٹھی۔ اسے اپنی میل یاد آئی۔ جلدی سے موبائل نکالا اور میل چیک کی مگر وہاں کوئی جواب نہیں آیا تھا۔موبائل واپس پرس میں ڈال دیا۔کیا وہ فیک تھی؟
پھر اسے حلیمہ پھوپھو کا خیال آیا۔ وہ کیوں گھر بکوانا چاہتی تھیں۔ سکندر تایا کی باتیں اس کے کان میں پھر سے سرگوشی کرنے لگیں۔
( کیا واقع ہی ممی پاپا کی دیتھ حلیمہ تائی کی وجہ سے ہوئی تھی یا پھر سکندر تایا نے یہ سب غصّہ میں کہہ دیا؟)
تبھی اس کی موبائل کی ٹون بجی۔ اس نے پرس سے نکال کر کان سے لگایا۔
"ہیلو!"
کوئی جواب نہیں آیا۔
"ہیلو؟"
دوسری طرف خاموشی۔ نور نے کان سے ہٹایا اور نمبر دیکھا۔ نمبر سے پتہ لگتا تھا کہ باہر کا نمبر ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی رشتہ دار وغیرہ ہو۔ اکثر رشتہ دار داد جان سے بات کرنے کیلئے نور یا مریم کے موبائل پر کال کرتے تھے۔ وہ سر جھٹک کر اٹھنے لگی۔ ٹون پھر بجی۔
ہیلو؟" اس بار لہجہ سخت تھا۔
"کون ہے؟اگر اب جواب نہ دیا تو نمبر بلاک کر دوں گی!" وہ غصّے سے بولی۔ مگردوسری ظرف وہی خاموشی۔
نور نے کال کاٹ دی اور نمبر بلاک لسٹ میں ڈال دیا۔
(اب کرے کال۔ ہونہہ!)
٭٭٭
گھر جا کر اس نے گاڑی کھڑی کی اور اندر داخل ہو گئی۔ سامنے دادی جان کے کمرے کی بتّی بجھی تھی یعنی وہ لاؤنچ میں بیٹھی ہیں لاؤنچ کے قریب جاؤ تو وہاں سب بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اندر سے ساری آوزیں با آسانی باہر سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے سوچا اندر داخل ہو جائے پھر کچھ اورسوچا اور وہیں کھڑی باتیں سننے لگ گئی۔
"بیٹا وہاں جاب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ امریکہ میں اچھی بھلی جاب تو ہےتمہاری۔" یہ دادی جان تھیں۔
"نہیں دادی جان ! ایسی اپرچونٹی روز روز نہیں ملتی۔ اور صرف سال بھرکی ہی بات ہے، پھر پراجکٹ مکمل ہو جائگا اور میں واپس آ جاؤں گا۔" یہ حبیب کی آواز تھی۔" اور واپس آنے کے بعد مجھے کسی بھی اچھی جگہ پر با آسانی جاب مل جائگی۔"
"کس طرح کا پراجکٹ ہے؟" مریم نے مداخلت کی تھی۔ نور وہیں کھڑے ماتھے پر بل لئے سنے جا رہی تھی۔
"تعمیراتی پراجکٹ ہے۔ ایک نئی آفشل بلڈنگ بن رہی ہے وہاں۔ جس کے لئے مجھے انہوں نے ا پراجکٹ مینیجر کے طور پر ہائر کیا ہے۔"
(کس نے ؟ اور کہاں؟)
"اچھی بھلی جاب ہے تمہاری امریکہ میں کیا ضرورت ہے؟" دادی جان اب بھی اپنی بات پر قائم تھیں۔
"نہیں دادی جان! اسے جانا جاہیے۔ یہ 'ون اِن اے لائف ٹائم' اپر چونیٹی ہے" اس بار عثمان نے اپنے بھائی کو ڈیفینڈ کیا تھا۔ دادی جان کے چہرے پر غم کے تاثرات بکھرے۔
"ان لوگوں کو تمہارا کیسے پتہ چلا؟" مریم پھر سے پوچھنے لگی۔
"میں نے پہلے بھی امریکہ میں ایک پراجیکٹ پر اسی کانٹریکٹر کے لئے کام کیا تھا۔ تو اب جب اسے وہاں پراجیکٹ ملا ہے، تو اس نے مجھے وہاں بھی اپائنٹ کیا ہے۔" پھر رکا جیسے چائے کا سپ لیا۔" اور پیکیج بھی اچھا ہے تو میں نے ہامی بھر لی۔"
"بیٹا اگر پہلے بتا دیا ہوتا، تم سب اس لئے آ رہے ملنے آ رہے ہو تو میں کچھ تیاری تو کر لیتی۔" دادی جان نے گلا کیا۔
"ارے ممی! تیاری کیسی۔ ہم نے سوچا آپ پھر اپنی تکلفّات میں لگ جائیں گی تو ہم نے نہیں بتایا۔"سکندر تایا وضاحت دینے لگے۔" اور پھر ہم نے کہا کہ دونوں کام ہو جائیں تو ہم سب یہاں آ جائیں۔"
"دونوں کام تو ہو جائیں گے مگر میرے دو بچّے مجھ سے دور ہو جائیں گے۔" دادی جان نے اداس سا کہا۔ مریم کے چہرے پر سایہ سا آ کر گزرا۔ عثمان نے مسکرا کر مریم کو دیکھا۔لمحے بھر کو دونوں کی نظریں ملیں پھر مریم واپس نیچے دیکھنے لگی۔
"حبیب وہاں اپنا بہت خیال رکھنا، میں نے سنا ہے وہاں بہت عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ پر اسرار قسم کے۔" مریم فکر مندی سے بولی۔
حبیب ہنس دیا جیسے اس کی بات سے محظوظ ہوا ہو۔
"اب ایسے بھی کیا پر اسرار لوگ ہوتے ہیں دوحۃ میں۔ قطر ایک اچھا ملک ہے۔"
اور باہر کھڑی نور کا تو جیسے سانس ہی رک گیا۔ کیا وہ۔۔ قطر؟ دوحۃ؟ اتنا دور؟ ایک سال!
"پھر بھی، نئی جگہ پر احتیاط کرنی چاہیے۔" عثمان بھی اسے دیکھے مسکرا رہا تھا۔
"جی!" بس اتنا ہی کہا۔
" دادی جان! نور کدھر ہے؟" مریم تشویش سے بولی۔ "آج دوپہر سے وہ نظر نہیں آئی۔"
"وہ یونی گئی ہے۔ اپنی اسائمنٹ سبمیٹ کروانے۔ بس آنے ہی والی ہو گی۔" دادی جان بولیں۔
اور باہر کھڑی نور جلدی سے اپنے آپ کو کمپوز کرتی اندر آئی۔
"اسلام علیکم!" مسکراتے ہوئے ، اپنے منفرد معصوم انداز میں بولی۔
"وعلیکم اسلام!" سب نے جواب دیا۔ پہلے دادی جان اور پھر تایا اور تائی کے گلے لگی۔ حبیب کو دیکھ کر بس مسکرا دی۔
"اسائمنٹ جمع کروادی؟" مریم نے پوچھا۔
"ہاں!" بس اتنا ہی کہا۔ دل ہی دل میں حبیب کے جانے کا افسوس سا تھا۔مریم آگے ہوئی اور اس کو چائے بنا کر دینے لگی۔ نور نے اپنے بیگ سے موبائل نکالا اور بٹن دبانے لگی۔
دادی جان افسوس سے دیکھنے لگیں۔ اور دل میں سوچا۔
(ہونہہ!آج کل کے بچوّں کا تو موبائلوں کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے اور ایک ہمارا زمانہ ہوتا تھا۔) مگر بولیں کچھ نہیں۔
٭٭٭
رات کے بارہ بج رہے تھے۔ نور قدم در قدم جلتی ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی مریم کے کمرے تک پہنچی اور اندر گھس کر کمرہ بند کر دیا اور لائٹ آن کر دی۔ اس نے سیاہ ٹائٹس پر سیاہ لیدر جیکِٹ پہن رکھی تھی جیسے کہیں باہر جانے کی تیاری ہو۔
ٍ قدم قدم چلتی اس کے بیڈ کے قریب پہنچی۔ وہ گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔ اس نے جھٹکے سے اسے ہلایا، مگر اسے کچھ فرق نہ پڑھا۔ پھر سے ہلایا ، پہلے سے قدرے تیزمگر کچھ فرق نہ پڑھا۔ پھر کچھ سوچ کر منہ اس کے کان کے قریب کیا۔
"اٹھوووو!!" اتنا زور سے چلّائی کے مریم کی تو روح تک کانپ گئی۔ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔
نور پیچھے ہوئی ۔ چہرہ قدرے سپاٹ تھا۔
"نور کیا کرتی ہو میں سو رہی تھی۔ نظر نہیں آتا کیا؟" آنکھیں مسلتی منہ بسورنے لگی۔ وہ چلّانے کے انداز میں بولی تھی۔
"جس قوم کے شاہین یوں سوتے رہیں گے، اس قوم کا کیا بنے گا آخر؟" افسوس سے کہا۔ مریم نے نظر اٹھا کر اس کا حلیہ دیکھا۔
"اور میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ جس قوم کے شاہین راتوں کو یوں آوارہ گردی کرنے نکلتے ہیں اور دوسروں کی نیند خراب کرتے ہیں ، ان کا کیا بنے گا؟" طنزیہ کہا اور واپس لیٹ گئی۔
"تمہاری زبان صرف منہ میں اچھی لگتی ہے۔ اب اٹھو !باہر چلتے ہیں۔" اپنی جیکٹ کی زِب چڑھانے لگی۔
"میں کہیں بھی نہیں جا رہی! پچھلی بار بھی دادی جان نے مجھے ہی بے عزّت کیا تھا اور تم اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔"
"ارے! وہ تو تمہے پیار سے ڈانٹتی ہیں۔" ناک چڑھا کربولی۔
"اوکے! میں نے بہت پیار لے لیا ہے۔ آج تم اکیلے ہی پیار لو۔" منہ پر کمبل ڈالے بولی۔
"اف چلو نا!" چہرے پر اکتاہٹ آ گئی۔
"نو!" جواب ناگوار سا۔
"مجھے غصّہ آ رہا ہے۔" ماتھے پر بل پھیلائے بولی۔
"نو!" جواب صاف تھا۔ نور 'ہونہہ!' کہہ کر مڑ گئی۔ لائٹ آن چھوڑ کر دروازہ دھڑام سے بند کر کے گئی۔
"نور! لائٹ تو بند کرو نہ!!" وہ چلّائی مگر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اب اسے خود ہی اٹھنا پڑے گا۔
نور گومنہ لٹکائے واپس اپنے کمرے کی طرف جانے لگی مگر پھر رکی۔ ابھی ایک امید باقی تھی۔ مسکرائ اور واپس مڑی۔
حبیب کا کمرہ نیم اندھیر تھا۔ سائڈلیمپ اب بھی آن تھا مگر وہ بے خبر سو رہا تھا۔ اچانک دروازے کا نوب گھوما اور کلک کی آواز آئی اور دروازہ کھلا۔ نور اندر داخل ہوئی۔
"حبیب!" نور نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ مگر اسے زرا فرق نہ پڑھا۔
"حبیب!" پھر سے سرگوشی کی۔
"حبیب!!!" اتنا تیز چلّائی کہ حبیب کے فرشتے بھی جاگ اٹھے۔
"ہا۔۔ہاں ۔۔کک ۔۔کون ہے؟" ایک جھٹکے سے اٹھا۔ نور بے اختیار مسکرا دی۔
(مطلب یہ تو کنفرم تھا کہ روح کو جگا دینے والا یہ فارمولا، ہر جگہ کار آمد ثابت ہوتا ہے!)
"نور یہ کون سا ٹائم ہے اور یہ کیا طریقہ ہے؟" رات کےکپڑوں میں ملبوس وہ آنکھیں مسل رہا تھا۔
"شش! چلو چلیں۔" اور مڑنے لگی۔
"کہاں؟" اس کی آنکھیں حیرانی سے پھیلیں۔
"زیادہ سوال مت کرو اور چلو!" چہرے پر ناگواری پھیلی۔ اس نے سائڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور وقت دیکھا۔
"نور یہ کون سا وقت ہے؟ 12 بج رہے ہیں!" نور ماتھے پر بل پھیلائے مڑی۔
"لڑکے! جو کہہ رہی ہوں وہ کرو! یہ تمہارا امریکہ نہیں ہے جہاں اندھیرے کو رات سمجھا جاتا ہے۔ یہ میرا پاکستان ہے، یہاں تو ابھی صبح ہوئی ہے۔" مسکرا کر واپس مڑی۔
"خاتون !صرف تم ہی اس وقت جاگتی ہوگی میں نہیں۔ میں الحمد الاللہ فجر کے لئے اٹھتا ہوں۔" کہہ کر لیٹنے لگا ۔
"ہاں ہاں ! اپنی تعریف بعد میں کر لینا۔ اگر 5 منٹ میں تم مجھے نیچےلاؤنچ کے دروازے کے پاس نہیں ملے نہ، تو صبح تمہاری چائے میں زہر ملا کر دوں گی۔" کہہ کر باہر نکل گئی۔
(اف!! کیا سائکو لڑکی ہے یہ)
پانچ منٹ بعد وہ لاؤنچ کے دروازے کے پاس کھڑا تھا اور نور اسے کچھ بول رہی تھی۔
"سمجھ گئے نہ؟" نور نے مسکرا کر پوچھا۔
"نور کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے!" خفہ نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
"گڈ! تم بہت جلدی سمجھ جاتے ہو۔" کہہ کر باہر پورچ کی طرف نکلنے لگی۔ وہ بھی پیچھے کو لپکا۔
دونوں گیٹ کے قریب گئے۔ گیٹ کے ساتھ چوکیدار کرسی پر بیٹھا خڑّاٹے مار رہا تھا۔ ساتھ چھوٹے سے سروینٹ روم کی بتّی بجھی تھی۔ جہاں وہ عموماً بیٹھتا تھا۔ نور قریب آئی اور سرگوشی کی۔
"غفور انکل!" چوکیدار کی فوراً سے آنکھ کھلی۔
" نور بی بی آپ اس وقت۔۔ یہاں؟" پختہ عمر والا چوکیدار فٹ سے بولا۔ حبیب پیچھے سے اس کے کمرے میں داخل ہوا۔
"باہر میرے فرینڈز میرا انتظار کر ہے ہیں ۔ پلیز گیٹ کھول دیں!" معصومیت سے درخواست کی۔
"نہیں چھوٹی بی بی،بڑی بی بی سےسختی سے اس وقت کسی کا بھی باہر نکلنےسےمنع کیاہے۔ میں نہیں کھول سکتا۔" پیچھے سے حبیب نے چابیوں کا گچھا اٹھا ایک ایک چابی پکڑکر اشارہ کیا۔ نور بس ایک نظر ہی اسے دیکھی۔
"ہا۔۔ہاں وہی۔۔ وہی والی۔۔ بات میں نے اپنے دوستوں کو کی مگر وہ بہت اصرار کر ہے ہیں۔ پلیز" حبیب مسکرایا۔
"کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں بڑی بی بی کو اس وقت اٹھاؤں؟" چہرہ سپاٹ۔
(ہونہہ گندہ بچّہ!!)
"اچھا ٹھیک ہے۔۔ میں منع کر دوں گی۔" اداس چہرہ بنایا۔" آپ باہر جا کر (ایک کاغذ جیب سے نکالا) بس یہ انکودے دیں۔"
چوکیدار نے اس کے ہاتھ سے کاغذ تھاما اور اٹھ کر گیت کھول کر باہر نکل گیا۔ مگر باہر کوئی نہیں تھا۔۔ایک دم سنسان۔۔ پھر ماتھے پر بل لئے واپس آیا۔
"باہر تو کوئی۔۔" مگر وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔
سر جھٹکتے ہوئے کاغذ اندر کمرے میں رکھا اور واپس کرسی پر آ بیٹھا۔
گھر کی پچھلی جانب دیکھو تو نور اور حبیب چھوٹے دروازے کے آگےکھڑےتھے۔ حبیب افسوس سے اسے دیکھے جا رہا تھا اور وہ مسکرا کر چھوٹے دروازے کا تالہ کھول رہی تھی۔
"کھل گیا!" دونوں ایک ساتھ باہر نکلے ۔ آگے راہداری سی تھی۔ راہداری عبور کر کے دونوں روڈ پر نکل آئے۔ سامنے گاڑی کھڑی تھی۔ دونوں اندر بیٹھ گئے۔ حبیب کانوں کو ہاتھ لگانے لگا اور نور نے اسے ایک زور دار مکاّ رسید کیا۔
"مگر ہم جا کدھر رہے ہیں اس وقت؟" نور بس مسکرا دی۔
"بھائی فوڈ سٹریٹ چلنا!"
اور حبیب سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسے یوں اس وقت نہیں آنا چاہیے تھا۔
"حبیب سکندر!یہ تمہاری زندگی کی سب سے خوبصورت رات بننےوالی ہے۔"مگر حبیب اب بھی ویسے ہی اکتایا ہوا بیٹھا تھا۔
٭٭٭
رات کے 1 بجے بھی فوڈ کورٹ میں صبح کا سا سماہ تھا۔ سارا بازار ینگسٹرز سے بھرا پڑا تھا۔ ہر طرف روشنیوں کی بھرمار تھی۔نوجوانوں کا ہجوم تھا۔ مسکراہٹیں ہر طرف پھیلی تھیں۔ چند لمحے لگے حبیب کو اس منظر کو برداشت کرنے میں۔ ہر طرف کھانے پینے کے اشیاء کی خوشبو اور لوگوں کا حجوم پھیلا تھا۔ گروہ در گروہ لوگ گزرتے جا رہے تھے۔
"چلو! یہاں کیوں کھڑےہو گئے؟" اور وہ جلدی سے سنبھل کر اس کے پیچھے بڑھا۔
نورسب سے پہلے ایک بار بی کیو کے سٹال کے آگے رکی جو بلکل شروع میں تھا۔ سٹال والے نے جلدی سے تکّوں کی پانچ سیخیں تیار کیں۔ ساتھ ایک چھوٹی پیالی میں ایک مشروب سا رکھا۔ اور پلیٹ آگے کی۔اس سٹال کے آگے بہت رش تھی۔
"یہ یہاں کے سب سے مشہور ہیں۔ اگر تم نے یہ آج نہیں کھائے تو زندگی بھر پچھتاؤ گے۔" اور جلدی سے ایک سیخ اٹھائے خود کھانے لگی۔ حبیب بس اسے دیکھے گیا۔"کھاؤ!"
"اس میں تو بہت مرچیں ہیں۔" حبیب نے آنکھیں میچیں۔
"زیادہ انگریزی گڑیا بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویلکم ٹو پاکستان!" اور حبیب نیند اور مرچ کے باعث سرخ آنکھوں سے بس اسے دیکھے گیا۔ اس نے دوسری سیخ نہیں اٹھائی۔ اس سے پہلے کے وہ والٹ نکال کر پیسے دیتا۔ نور کاؤنٹر پر رکھ کر کب کی آگے بڑھ چکی تھی۔
"اب میں تمہے یہاں کا سب سے مشہور مشروب پلاؤں گی۔۔ یہاں کا لیمونیڈ!"
(ہونہہ!! میرا نام لے کر خود انجوئے کر رہی ہے) حبیب نے سوچا۔
اس بارحبیب پہلےہی پےکرنےلگامگرنورنےاس کے ہاتھ پر ایک چپت لگائی۔
"تمہے یہاں میں لائی ہوں، پے بھی میں ہی کروں گی۔" مگر حبیب نےپہلےہی پےکردیاتھا۔ نورنےایک نگاہِ غلط اس پر ڈالی۔
لیمونیڈ اب ان کے ہاتھ میں تھا۔ پہلی نظر دیکھتی ہی اس کا چہرہ بگڑ گیا۔
کہنے کی ہمت نہیں کر پا رہااتھا۔unhygienicمگر اب وہ اس لیمونیڈ کو
اس نے بس آنکھیں اور سانس بند کر کے ایک ڈیگ بھرا۔ مگر اس کے خیالات کے برعکس، وہ لیمونیڈ واقع بہت مزیدار تھا۔اسے یاد آیا،اس نے ایسا ہی ایک لیمونیڈ امریکہ کہ ایکدیسی ریسٹرانٹ میں بھی پیا تھا۔ اس کا موڈ کافی بہتر ہو گیا۔ جب تک اس نے اپنا گلاس ختم کیا، نور آگے بڑھ چکی تھی۔ جب تک وہ نور تک پہنچا، نور آئس کریم لئے کھڑی تھی، اس کے ہاتھ میں آئس کریم پکڑائی (اتنی سردی میں آئس کریم کون کھاتا ہے؟) اور آگے بڑھ گئی۔
وہ اس کے پیچھے کولپکا ۔ آگے کچھ جھولے وغیرہ لگے تھے اور نور وہیں جا رہی تھی۔ وہ تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ وہ وہیل کے ایک کیبن میں بیٹھے،مسکراتے ہوئے ، اسے آتا دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے نکالنے لگا مگر خود بھی اندر ہی بیٹھ گیا۔ ہاٹھ میں آئس کیم ہنوز ویسے ہی پکڑی تھی۔ اگلے اور پھر اگلے کیبن بھرتے گئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی جھولا شروع ہو گیا۔
حبیب کا سانس جیسے وہیں رک گیا۔ اونچائی سے تو اسے ہمیشہ ہی ڈر لگتا تھا مگر اب تو نور بھی ساتھ تھی اف! اف!
آیئس کریم اس کے ہاتھ سے اونچائی سے گری مگر اسے کچھ ہوش نہ تھا۔ وہ بس دم سادھے خاموش بیٹھا رہا اور نور مزے میں چلّاتی رہی۔جھولا رکا تو اس بار وہ نور کے ساتھ ساتھ رہا تا کہ اسے کسی بھی اگلی غلط حرکت سے روک سکے۔ مگر وہ تو بندروں کا تماشا دیکھنے کھڑی ہو گئی۔
(لو بھلا! آدھی رات کو کوئی گھر سے چھپ کر ان بندروں کا تماشا دیکھنے کھڑا ہو؟)
مگر جوں جوں وہ کرتب دکھا رہے تھے۔ حبیب کی دلچسبی بڑھ رہی تھی۔ ایک بندرڈگڈگی پر ناچنے لگا جبکہ دوسرا ہنوز اکڑوں بیٹھا تھا۔۔ ہلا بھی نہیں! مالک اپنی بے عزّتی کے غم سے بارباراسے ہلا رہا تھا مگر وہ ہلا بھی نہیں۔
حبیب مسکرایا۔ اس عجیب سی حرکت نے جیسے اسے مزہ دلانا شروع کر دیا تھا۔ تبھی کسی نے اس کا بازو کھینچا اور وہ آگے بڑھ گیا۔ آگے کپڑوں اور جیولری کے سٹالز تھے۔ نور ایک سٹال کے آگے کھڑی چوڑیاں دیکھنے لگی۔
"یہ والی کیسی ہیں؟" حبیب نے مسکرا کرسیاہ رنگ کی اٹھائیں۔ نور نے منہ بسوڑا۔
"ایں! بلیک کلر تو مجھے بلکل پسند نہیں!" اور آگے بڑھ گئی۔ حبیب اب خاموش رہا۔ اس نے سرخ رنگ کی چوڑیاں خریدیں اور اس بار حبیب نے ہی پے کیا۔
آگے بڑھے تو بچوں کے کھلونے وغیرہ تھے۔ نور آگے بڑھی ایک گڑیا خریدی۔ ایسی ہی ایک گڑیا اس کی سٹڈی میں بھی پڑی ہے۔ حبیب کو اس گڑیا کو دیکھ کر جیسے بہت کچھ یاد آیا۔ اور نور کو بھی۔آگےسے نور نےکافی سٹال سے دو کافی مگ خریدے۔ بھئی کافی تو مسٹ تھی!
حبیب نے خوشی سے تھام لیا۔ دونوں اب آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ نور کی پھرتی اب کم ہو گئی تھی۔ حبیب نے شکر ادا کیا۔نورنے گھڑی نکالےٹائم دیکھا۔
"ابھی تو ڈھائی بجے ہیں۔ دادی جان تہجّد کےلئےتین بجےاٹھیں گی۔"
(اللہ!یہ لڑکی پوری تیاری سے آئی ہے)
"حبیب تو کیسا لگا تمہے میرا پاکستان؟"
"ایکسکیوزمی خاتون! میں بھی یہیں کا پیداوار ہوں۔"پھر کافی کا سپ لیا۔"پاکستان بہت نیچرل ہے !بہت ریئل! اور پہلے سے بہت مختلف بھی!"
"اور پاکستان کے لوگ؟" گرم کافی منہ سے لگائی۔ حبیب اس کی طرف طنزیہ نظروں سےدیکھا۔
"بہت من مان!" نور بس مسکرادی۔ کوئی مکاّ رسید نہیں کیا۔ لوگوں کے ہجوم کو کاٹتے گزر رہے تھے۔
"حبیب ! تم نے امریکہ جا کر ہم سب کو مِس نہیں کیا تھا؟" سیدھ میں چلتی پوچھنے لگی۔
"ہوں! کچھ مہینے اور بس۔ پھر عادت ہو گئی۔"
"بس کچھ مہینے؟" نور حیرانی سے اسے دیکھی۔" اور میں تو کئی سال تم لوگوں کے جانے پر اداس رہی۔"وہ اس کی بات پر برا مانی۔
"تم لڑکے کتنے برے ہوتے ہو نہ؟ کم از کم دل رکھنے کیلئے ہی بول دیتے کہ ایک دو سال بہت مِس کیا۔"
"حبیب سکندرکبھی جھوٹ نہیں بولتا!"
"اور نورالعرش تمہارا منہ توڑ دے گی اورتمہےیہیں چھوڑکرچلی جائگی۔" کہہ کر تیز چلنے لگی۔حبیب مسکرایا، پیارا سا۔
"اور میں دادی جان کو تمہارے قرتوتوں کی خبر کر دوں گا۔" وہ ہنوز مسکراتا رہا۔ بھوری آنکھیں چمکتی رہیں۔
"یہ پانی پری ہے نا؟" حبیب نےجلدی سے پوچھا۔ نور بس اس کی طرف دیکھی اور تھوڑی دیر بعد دونوں اس سٹال کے آگے کھڑے پانی پری کے چسکے لے رہے تھے۔
"واؤ! اب بھی ویسا ہی زائقہ ہے جیسا میں نے بچپن میں کھایا تھا۔" آنکھیں میچے زائقے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد دونوں پھر سے گلی کے بیچ میں چلنے لگے تھے۔
"کافی کے بعد پانی پڑی کھانے پر مجھے کچھ بہت برامحسوس ہو رہا ہے۔" نور بولی۔
"مجھے بھی۔" پیٹ پر ہاتھ رکھے حبیب نے تائید کی۔
"اب اس غلطی کو سْدھارنے کا وقت ہے۔" حبیب نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ اور پھر بس مسکرا دیا۔
ہاتھوں میں کاٹن کیندیز پکڑے ،وہ بچپن کی یادوں کو جسے یاد کر رہا تھا۔
"ہم بچپن یں بھی اکثر ایسے ہی پانی پری کے بعدکاٹن کینڈیز کھاتے تھے نہ؟"وہ ہنس دیا۔اور نور بس ہنستے ہوئے"ہوں" کہہ کر رہ گئی۔
"تھینکس گاڈ تم ساتھ تھے۔ بہت مہینوں بعد ادھر آئی ہوں۔" حبیب نےحیرانی سے اسے دیکھا۔
"کیوں؟مہینوں بعد کیوں؟" وہ حیران ہوا تھا۔
"کیونکہ دادی جان ہمیں ایسی جگہوں پر نہیں چھوڑتیں اور اگر چھوڑ بھی دیں کبھی تو ساتھ ڈرائورضرور ہوتا ہے۔ اور اس کی موجودگے سے میں بہت اَن کمفورٹیبل ہوتی ہوں،یو نو!"
"دادی جان کیوں نہیں چھوڑتیں؟" اس نے سادگی سے پوچھا۔
"کیونکہ یہ جگہ سیف نہیں ہے۔ اور میں اَن سیف جگہیں انجوائے کرتی ہوں۔"ساتھ ہی اسے دیکھ کر داہنی آنکھ جھپکائی۔حبیب دل ہی دل میں اسکے پاگل پن پر افسوس کرنے لگا۔
تبھی وہ سٹریٹ کے دوسرے کونے سے نکل آئے ر سامنے کیب کھڑی تھی۔ دونوں اندر بیٹھ گئے۔ تین بجے وہ دونوں اندر گھنس کر گھر کے پچھلے دروازے کو لاک کر رہے تھے۔
"نور مجھے واقعی بہت مزہ آیا! سچ میں!" وہ بس خوشی سے مسکرا رہا تھا۔
"آئی نو! اب جاؤ اور سکون کی نیند سو جاؤ۔"
دونوں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اندر داخل ہوئے اور پھر اوپر اور پھر اپنے اپنے کمروں میں۔
وہ رات اب ختم ہونےکوتھی۔
وہ رات جیسے امرہو گئی تھی۔
٭٭٭
اگلی صبح اس گھر پر قدرےدیرسے ہوئی۔ نور دیر سے اٹھی اور سب کافی دیر سے ناشتے پراس کا انتظار کرتے رہے۔ حبیب بھی جلدی اٹھ گیا تھا۔ چہرے پر رات والے واقعے کے کوئی آثار نہ تھے جیسے رات کو کچھ ہوا ہی نہ تھا۔کچھ دیر بعد سب ڈائننگ پر بیٹھےتھے۔مریم خانساماں کےساتھ ناشتہ لگا رہی تھی اور نور کھڑی چائے بنا رہی تھی۔
"زرینہ تائی! آپ کے لئے بھی چینی نہ ڈالوں؟"
"نہیں بیٹا! میں بھی چینی نہیں لیتی۔" مسکرا کر بولیں۔
"ھبیب زہر کتنی چمچ؟" قریب بیٹھےحبیب سےمسکراکرپوچھا۔
"بس دوچمچ۔میں زیادہ نہیں لیتا۔" وہ ہنس دی۔
سب نےآرام سے ناشتہ کیا۔ دادی جان اور سکندر تایاکی سردمہری اب بلکل نظرنہیں آتی تھی۔نورمسلسل حبیب کومسکرا کر دیکھ رہی تھی مگرحبیب زرا بھی نہیں مسکرایا۔دیکھا تک نہیں۔وہ کوئی بچّہ تھوڑی تھا!
"ہوں،تو پھررات کا کیا پلان ہے نور؟" عثمان نےٹشو سے چہرہ تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔حبیب اور نور بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھے۔
"جی؟" اسے پچھلی رات یاد آئی۔
"وہ تم کہہ رہی تھی کہ آج رات کچھ فیسٹ وغیرہ ہے؟" آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔
"ہا۔۔ہاں۔۔آج شام کو نیو ائرفیسٹ ہے۔ آپ چلیں گے عثمان بھائی؟" وہ بدقت مسکرائی۔ آخر کوئی تو ہے،جسے پارٹیز میں انٹرسٹ ہے۔
ہوتے ہیں۔" وہ بھی مسکرایا۔ (Fest) "ہاں،ضرور چلوں گا۔دیکھوں گا کہ پاکستان میں کیسے فیسٹس
اور مریم بھی عثمان کودیکھے پیارا سا مسکرادی۔
کچھ دیربعد،ناشتہ کر کےسب لاؤنچ میں آ بیٹھے۔ نوربھی لاؤنچ میں موبائل تھامے آبیٹھی۔ اب تو اسائمنٹ کا بھی غم نہیں تھا۔ عثمان اپنے کمرےمیں اوپر چلا گیا۔(گھر کے تقریباًسب کمرے اوپر والےپورشن مین تھے۔ نیچے صرف دادی جان، سکندر تایا اور حلیمہ پھوپھو کا کمرا تھا۔) مریم چند کتابیں لئےباہرلان میں چلی گئی۔
کئی دیرتک دادی جان،زرینہ تائی کےساتھ خاندان کے مختلف افراد کی غیبتوں میں مصروف رہیں۔پاکستانی خواتین خواہ کتنی ہی کم گو کیون نہ ہوں، جب غیبتوں کی بات آتی ہے توسب کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سےزیادہ چٹپٹی خبر سنائیں۔ سکندر تایا ،حبیب کے ساتھ مصروف رہے۔ باتوں باتوں میں جب 'دوحۃ' کا زکر آیا تو نور بغور ان کی بات سننے لگی۔ ناجانے کیوں جیسے ہی دوحۃ کا زکر آتا، اس کا دھیان خودبخود کھچا چلا جاتا۔
"حبیب !آج کل میں نے سنا ہے قطرمیں بہت عجیب سے واقعات ہونے لگے ہیں۔" سکندر فکر مندی سےکہنے لگے۔
"پاپا! جوں جوں میرے جانے کے دن قریب آ رہے ہیں، آپ کوروز کچھ نہ کچھ نئی خبر ملتی ہے۔"و ہ ہنس دیا۔مگر سکندر زرا نہ ہنسے۔
"نہیں،میں نے ایک قابل رپورٹرکا آرٹیکل پڑھا تھا، اس کے مطابق وہاں کچھ لوگ پرائویٹلی کام کر رہے ہیں اور لوگوں کا قتل کر کے ان کی لاشیں سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے چلا آرہا ہے مگر اب نوٹس میں آیا ہے۔" پھر رکے۔"اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ سب لوگ کس کے لئے کام کر ہے ہیں اور کیوں؟"وہ بس سر ہلا کر رہ گیا، وہ سکندر کو نہیں سمجھا سکتا تھا کہ فکر نہ لیں۔ نور بس اٹھ کر چلی گئی۔
کمرے میں جاتے ہی اس نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا۔جلدی سے اپنا 'جی-میل' کھولااور میلز چیک کیں۔مگر وہ وہیں ششد رہ گئی۔۔
وہاں تو کوئی میل ہی نہیں تھی۔ جیسے نہ کبھی بھیجی گئی ہو، نہ کبھی موصول کی گئی ہو۔ اس نے جلدی جلدی باقی سارے فولڈرز کھولے مگراس میں کا کہیں کوئی نام و نشان ہی نہیں تھا۔
(ہو سکتا ہے وہ کوئی فیک میل ہو اور پکڑے جانے پر گوگل والوں نے وہ اکاؤنٹ بلاک کر دیا ہو)اس نے دل ہی دل میں اپنے آپکو تسلّی دی۔ مگر دل نہیں مانتا۔
اس نے ایک گہرہ سانس لیا گو کہ دل کو تسلّی دے رہی ہو۔ پھر میل والا ٹیب بند کر کے دوسرا ٹیب کھولا۔
وہاں پرا س نے 'نیو-ائر فیسٹ' والوں کا پیج کھولا۔ اور چار ٹکٹس خریدے۔ کم از کم رات کو انکو کسی لائن وغیرہ میں کھڑا نہ ہونا پڑے۔ان امریکی مہمانوں کے منہ سے اسے اپنے ملک کے بْرے نظام کا سننابہت برا لگتا۔ سو ،یہ ایک بہتر آئڈیا تھا کہ وہ آنلائن ٹکٹس ہی خرید لے۔ٹکٹس خریدتے ہی اس نے لیپ ٹاپ فوراً بند کر دیا۔ اسے کچھ عجیب سا احساس ہونے لگا تھا۔ جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے، ہر پل۔۔ کوئی اس کی تاک میں بیٹھا ہے مگر پھر زہن کو جھٹک دیتی۔ مگر دل میں جب ایک بات آ جائے تو اسے خدا کے علاوہ آج تک کوئی نہیں نکال پایا۔
زہن سے بس خیال جھٹکا اور اٹھ گئی۔ اسے ا ب رات کی بھی تو تیاری کرنی تھی۔اْف اللہ! اف اف! ایک ینگ لڑکی کی زندگی میں آج تک اس سے زیادہ مشکل فیصلہ کوئی نہیں ہے۔آج رات کو کیا پہنے؟ اب رات کو بھی تو تیار ہونا تھا نہ!
اسے تیار ہونا بھی چاہئے تھا۔۔
٭٭٭
وہ شام نور کو اس سال کی سب سے خوبصورت شام لگی۔ ہرطرف جابجا روشنیاں ہی روشنیاں تھیں ۔موسیقی کی دھن ہی دھن۔ہر طرف ایک شور سی خاموشی تھی۔یا شاید اتنا شور تھا کہ اسے ایسا محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ چاروں،گیٹ سے جوں ہی اِنٹر ہوئے تو سب سے پہلے ان کے ٹکٹس چیک کئے گئی، جو نور نے پہلے سے ہی پرنٹ کروا لئے تھے۔ نور اور عثمان اپنے ہی دھن میں تھے، جبکہ مریم اور حبیب قدرے غیر آرام دہ تھے۔ مگر کسے پرواہ تھی؟ہر طرف لوگوں کا رش سا لگا ہوا تھا۔ حبیب نے دیکھا کہ پچھلی رات کے مقابلے،یہاں لوگ کافی ماڈرن سے تھے۔ لبرل حلیوں میں۔
نور نے بلو جینز پر چمکتی ستاروں والی گولڈن شرٹ اور اوپر سیاہ جیکٹ پہن رکھی تھی، ساتھ ہلکہ میک اپ بھی کر رکھا تھا، بال کل کے مقابلے کھلے چھوڑے تھے۔ اندھیر چمکتی شام میں وہ کسی صاحرہ سے کم نہیں تھی۔جبکہ مریم نے نور کے اصرار پر جینز کے اوپر لانگ فراک سا پہن رکھا تھا۔ حبیب اور نور دونوں نے کیژول پینٹ شرٹ اور اوپر جکٹس پہن رکھی تھیں۔
ہر طرف مختلف سٹالز اور ہر سٹال کے آگے لوگوں کا حجوم۔۔ مگر نہیں، یہ ہجوم بلکل بھی پچھلی رات جیسا نہیں تھا بلکہ آج تو لوگ تعداد میں کل رات سے دگنے تھے اور ان 'لوگوں' میں صرف ینگسٹرز ہی نہیں بلکہ بچے ،بوڑھے،جوان سب شامل تھے۔ موسیقی ایسی تھی کہ ساتھ کھڑے آدمی کو سننا دشوار تھا۔
یہاں پچھلی رات کی طرح بس کھانے پینے اورتفریح کے میلے ہی نہیں تھے ۔بلکہ بڑے بڑے ٹینٹس بھی نظر آتے تھے، گو کہ کمرے بنے ہوں۔ ہر کمرے کے باہر ایک ٹیگ سا لگا تھا۔جیسے سرکس،ڈانس پارٹی، ِمرَر ورلڈ،کانٹی نینٹل فوڈ پارٹی ، موشن رائڈوغیرہ۔ پھر آگے جاؤ تو چند 'بارز 'وغیرہ تھے۔ تھوڑا اور آگے جاؤ تو میدان کا آخری سرا آجاتا ہے، جہاں ایک سٹیج سا بنا تھا۔ جس سے صاف ظاہر تھا کے یہاں کانسرٹ ہونی تھی۔ مگر وہاں ہجوم نہ ہونے کے برابر تھا اور جو تھا، وہ صرف تصویریں اتارنے کھڑے تھے کیونکہ کانسرٹ میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔
حبیب نے گھنستے ہی چاروں اطراف کا جائزہ لیا۔ نور البتہ بے فکر سی عثمان بھائی اور مریم کے ساتھ تھی جوایک ایک سٹال کے آگے رک کر دیکھ رہے تھے۔ نور کی اجلت سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ڈانس پارٹی کا رخ کرنا چاہتی ہے۔ اور مریم کی سست روی سےصاف ظاہر تھا کہ وہ نور اور عثمان کسی کو بھی وہاں نہیں جانےدینا چاہتی ،البتہ منہ سے کچھ نہ بولی۔ حبیب بھی ان کےساتھ آ کھڑا ہو۔
عثمان کپڑوں کے سٹال کے آگےکھڑا مریم کوکپڑے دلارہا تھا۔ اس کے بار بار اصرار کے با وجود وہ اس کے لئے لیے جا رہا تھا ساتھ ہی نور کے لئے بھی لے رہا تھا۔ اور حبیب بس اِدھر اْدھر دیکھے تماشہ دیکھ رہا تھا۔
"اچھا بس، عثمان بھائی اب چلتے ہیں نہ۔ یہ کپڑے تو بعد میں بھی لے سکتے ہیں۔" وہ اکتا سی کئی تھی۔
"اوکے چلو!"مسکرا کر آگے بڑھ گیا۔ نور بھی جلدی جلدی آگے کو بڑھی۔ آگے وہ چاروں جولڑی کے پاس کھڑے ہو گئے۔مریم اور نور دونوں نے اپنی پسند کی چوڑیاں اٹھا لیں۔ نور نے آج سیاہ رنگ کی چوڑیاں اٹھائیں۔ اسے نا جانے کیوں یہ رنگ اب اتنا برا نہیں لگ رہا تھا جتنا پہلے لگتا تھا۔ حبیب نے دیکھ لیا تھا۔
اب وہ کھانے پینے کے سٹالز کے آگے آ گئے تھے۔ حبیب اب بھی پیچھے والے سٹال پر کھڑا اپنے لئے خوشبو پسند کر رہا تھا۔ نور نے جلدی سے پانی پری پر ہلّا بول دیا۔ مریم نے اسے کنٹرول کرنے کا کہا ،مگر اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ عثمان بھی نور کے ساتھ کھڑا کھا رہا تھا۔ مریم اب البتہ پہلے کی طرح غیر ارامدہ نہیں تھی۔حبیب اب آگے آگیا تھا اور وہ بھی اب اپنے لئے پلیٹ بنوا رہا تھا۔
نور نے اچانک اپنے دائیں پر مڑ کر دیکھا۔ اسے لگا جیسے کوئی مسلسل اس پر نظریں تانے ہوئے ہے۔مگر وہاں اتنی رش تھی کہ اسے یقین ہو گیا کہ یہ اس کا گمان تھا۔ وہ پھر سے مڑ کر کھانے لگی۔ساتھ آگے جا کر سب نے انار کے جوس کے گلاس تھام لئے جو انتہائی لزیز اور ترش تھا۔ نور نے اپنا گلاس ختم کیا اور آگے چلی گئی ۔ڈانس پارٹی والے کمرے میں۔ عثمان اور مریم بھی پیچھے کولپکے۔ حبیب البتہ آرام سے جوس کے مزے لیتا رہا۔ اسے ان بے سْرے سازوں پر اچھلنے کا کوئی شوک نہیں تھا۔
کمرے کے اندر قدرے اندھیرا سا تھا۔ڈَل سی بتیاں جل رہی تھیں۔اندر موجود زیادہ تر ینگسٹرز مسلسل اچھل کود سے رہے تھے، اپنی ہی دھن میں۔ نور اور عثمان بھی وہیں اچھلنے لگے، مریم مسکراتے ہوئے انھیں دیکھنے لگی۔ دفعتاً نور کو احساس ہوا کہ حبیب وہاں نہیں ہے۔ وہ زرا رکی۔
"کیا ہوا ہے؟" مریم نے چونک کر پوچھا۔
"حبیب کدھر ہے؟" نور نے جواباً سوال کیا۔
"باہر ہوگا آجائگا۔" اس نے شور سے آواز نکالتے اسے تسلّی دی۔
"میں اسے لاتی ہوں۔" کہہ کر وہ باہر کو نکلی۔ عثمان نے چونک کر مریم کو اشارہ سا کیا جیسے پوچھ رہا ہو"یہ کہاں گئی؟" اور مریم نے اسے جواباً "حبیب" کہہ کر تسلّی دی۔ اس نے مریم کے دونوں ہاتھ تھام لئے اور اسے بھی ساتھ ساتھ نچانے لگا۔
اور مریم گو شرم سے پانی پانی قدرے شرمانے لگی۔ عثمان اس کے شرم سے سرخ ہوتے گال دیکھ کر خوبصورت سا ہنسا۔ مریم سوچنے لگی کہ اگر نور نے اسے اس طرح دیکھ لیا تو آج ساری رات اسے شرمندہ کرے گی۔ وہ آرام سے اس کے ہاتھ سے ہاتھ نکال کے رہی۔
باہرآؤ تو نور ماتھے پر بل پھیلائے، ادھر ادھر دیکھے حبیب کو ڈھونڈنا چاہ رہی تھی۔ حبیب نے ہلکاسا اشارتاً ہاتھ ہلایا تو نور کی نظر میں آیا۔ نور نے اسے اندر آنے کا اشارہ سا کیا تو اس نے اثبات میں سر ہلا کراسے تسلّی دی۔نور تسلّی بخش تاثرات لئے مڑی۔ مڑ کر اس نے دیکھا ایک اور کمرا (جو اس ڈانس والے کمرے کےبلکل ساتھ تھا)بلکل خالی سا تھا۔ وہاں باہر بھی کوئی نہیں تھاجیسے کسی کو بھی وہاں جانے کا شوق نہ ہو۔
کا ٹیگ لگا تھا۔۔ (Mirror World)اس کمرے کے باہر"مرر ورلڈ"
نور کی سنہری آنکھیں مزید چمکیں۔ وہ اندر جانا چاہتی تھی۔ وہ اندر جانے کے لئے آگے بڑھی۔ حبیب اس سے کافی دور تھا گر پھر بھی اسے دیکھ سکتا تھا۔ وہ اندر چلی گئی۔۔
اندر کا منظر قدرے سادہ سا تھا بلکل عام سا۔وہ وسط میں آ کر کھڑی ہو گئی۔ چاروں اطراف آئنہ ہی آئنہ۔یہ بلکل ویسا ہی تھا جیسے اس نے فلموں میں دیکھا تھا بس اتنافرق تھا کہ وہ کیمرے کی آنکھ سے چھن کر اپنی آنکھ سے دیکھا تھااور یہ منظر اس نے اپنی آنکھ کی 'پتلی' سے گزرتے ہوئے دیکھا۔ منظر گو ایک ہی تھا بس سورسز مختلف تھے۔
اس نے چاروں گردار مر کر دیکھا اور پھر قدرے خوشی سے مسکرائی۔ عجیب سی خوشی مگر دل میں نہ جانے کیا کاٹ رہا تھا مسلسل۔ چاروں گردار شیشوں کو دیکھتے اسے یہ بھی بھول گیا تھا کہ وہ گھسی کہاں سے تھی۔ جیسے کنفیوز سی ہو گئی ہو۔مگر پھر۔۔
ایک دم جیسے ساری بتیاں بجھ گئیں۔ ساری بتیاں لمحے بھر کے لئے بجھیں۔۔ اف لوڈشیڈنگ!
مگر اسی لمحے بعد ساری بتیاں جل اٹھیں۔
اور اس نے اپنے سامنے والے آئنے میں دیکھا کہ۔۔
ایک آدمی اس کے بلکل پیچھے کھڑا مسکرا رہا ہے۔
آدمی کا حلیہ قدرے عجیب ہے۔ اس نے سیاہ ٹراؤزر کے اوپربراؤن کلر کا لانگ کوٹ پہن رکھا ہے۔قد عام تھا۔ نہ زیادہ لمبا، نہ زیادہ چھوٹا۔ ناک کی ہڈّی کے او پر سیاہ چشما ٹکائے، ہاتھ میں ایک اسٹک سی پکڑ رکھی تھی۔چہرے کا رنگ سانولا سا تھا۔سر پر ہیٹ کے باعث ،اس کے بال چھپے تھے ۔اسٹک ہاتھ میں پکڑنے کے باوجود صاف پتہ لگتا تھا کہ نہ وہ بوڑھا ہے، نہ لنگڑا، نہ اندھا۔ اور وہ بس مسکرا رہا تھا۔ چبھتی مسکراہٹ کے ساتھ۔۔
اور پھر وہ کچھ بولا۔۔ بھاری مردانہ آواز کے ساتھ۔۔مگر مسکراتے ہوئے۔۔
"آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے!"
نور کو لگا اس کے ماتھے پر ڈھیروں پسینہ ہے اور اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی ہیں مگر وہ ہل بھی نہیں سک رہی تھی۔ اسے اس آدمی سے بہت ڈر لگا۔ زندگی میں پہلی بار اسے کسی سے ڈر لگا۔
وہ بلکل اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی تھی۔سنہری اور سیاہ آنکھیں ملیں۔
اور پھر نور نے اپنی نظروں میں ایک منظر سا دیکھا۔۔بہت بھیانک سا۔۔
اور پھر بتاں ایک دفعہ پھر بجھیں۔۔
اور جب بتیاں جلیں۔۔تو وہاں کوئی نہ تھا۔۔
اور یہ سب بس لمحوں میں ہوا۔۔لمحے بھر کا کھیل۔۔
اور نور وہیں اکڑ سی گئی۔۔
بلکل ساکن۔۔
بلکل جامد۔۔
٭٭٭
(آئندہ اگلے ماہ انشاءاللہ!)
ns 15.158.61.54da2